بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے سات مسلم انتہا پسندوں کو سزائے موت سنا دی ہے۔ ان ملزمان پر الزام تھا کہ انہوں نے سن دو ہزار پندرہ میں ایک صوفی درگاہ کے ایک محافظ کو ہلاک کیا تھا۔
اشتہار
بنگلہ دیشی شہر رنگ پور کی ایک عدالت نے اتوار کے دن سات ایسے مسلم انتہا پسند جنگجوؤں کو سزائے موت سنا دی، جن پر الزام تھا کہ وہ سن دو ہزار پندرہ میں ایک صوفی درگاہ کے ایک محافظ کو ہلاک کرنے کے مرتکب ہوئے تھے۔ شمالی شہر رنگ پور کے دفتر استغاثہ سے وابستہ راتیش چندرا بھومک نے اتوار کے دن صحافیوں کو بتایا کہ ایک خصوصی عدالت میں یہ ملزمان مجرم قرار پائے، جس کی وجہ سے انہیں یہ سزا سنائی گئی۔
بھومک کے بقول، ’’یہ تمام جنگجو ’جماعت مجاہدین بنگلہ دیش‘ کے رکن تھے۔‘‘ ان کے بقول چھ ملزمان کو عدالت میں سزا سنائی گئی جبکہ ایک کو اس کی عدم موجودگی میں، کیونکہ وہ ابھی تک مفرور ہے۔ ممنوعہ ’جماعت مجاہدین بنگلہ دیش‘ کے رکن تمام افراد کا تعلق بنگلہ دیش سے ہی بتایا جاتا ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ ڈھاکا حکومت ایسے مفروضات کو رد کرتی ہے کہ اس جنوب ایشیائی اس ملک میں داعش یا دیگر غیر ملکی جہادی فعال ہیں۔
راتیش چندرا بھومک نے اے ایف پی کو بتایا کہ سن دو ہزار پندرہ میں صوفی درگاہ پر ہوئے اس حملے کے بعد سے ہی ملکی سکیورٹی ادارے فعال تھے اور اس سلسلے میں جاری مختلف کارروائیوں کے نتیجے میں دو شدت پسندوں کو ہلاک بھی کیا جا چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان انتہا پسندوں نے اعتراف کیا ہے کہ صوفی درگاہ کے محافظ کو ’بدعتی‘ قرار دیتے ہوئے ہلاک کیا گیا تھا، ’’ان لوگوں کا خیال ہے کہ درگاہوں پر جانا اسلام مخالف ہے۔‘‘
بھومک کے مطابق انتہا پسندوں نے خبردار کر رکھا ہے کہ ’ اگر کوئی اسلام کی بنیادی تعلیمات سے انحراف‘ کرتے ہوئے کوئی بھی ’بدعتی عمل‘ کرے گا تو اسے ہلاک کر دیا جائے گا۔ ’جماعت مجاہدین بنگلہ دیش‘ پر ایسی کئی حملوں کے الزامات عائد کیے جا چکے ہیں۔ یہ شدت پسند گروہ ملکی اقلیتی گروہوں کو متعدد مرتبہ نشانہ بنا چکا ہے۔
حکومت کے مطابق اسی شدت پسند گروہ کے جنگجوؤں نے جولائی سن دو ہزار سولہ میں ڈھاکا کے ایک کیفے پر دہشت گردانہ حملہ کرتے ہوئے بائیس افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ ان ہلاک شدگان میں اٹھارہ غیر ملکی تھے۔ تاہم اس خونریز کارروائی کی ذمہ داری شدت پسند تحریک ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے قبول کی تھی۔
اس ہائی پروفائل حملے کے بعد بنگلہ دیشی حکام نے انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی میں تیزی پیدا کر دی تھی۔ تب سے اب تک ڈھاکا حکومت کے مطابق مختلف کارروائیوں کے نتیجے میں ستر سے زائد جنگجوؤں کو ہلاک جبکہ سینکڑوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
ع ب / ش ح / اے ایف پی
بنگلہ دیشی جمہوریت کے لیے مشکل دور
بنگلہ دیش میں اپوزیشن کے بائیکاٹ کے باوجود اتوار پانچ جنوری کو عام انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔ انتخابات سے پہلے ملک گیر ہنگامے اور ہڑتالیں ایک معمول بن چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Dinodia Photo
سیاسی بد امنی
پانچ جنوری کو بنگلہ دیش میں مجوزہ انتخابات سے ایک سال پہلے سے یہ ملک مسلسل احتجاجی مظاہروں، ہڑتالوں اور تشدد کی لپیٹ میں ہے۔ بڑی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) کے حامیوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان تواتر سے تصادم ہوتا رہا ہے۔ اس جماعت کی قائد نے دسمبر کے اواخر میں انتخابات کو روکنے کے لیے ’جمہوریت کے لیے مارچ‘ کی کال دی تھی۔ مظاہرے جاری ہیں۔
تصویر: MUNIR UZ ZAMAN/AFP/Getty Images
اکثریت انتخابات کے خلاف
ڈھاکہ ٹریبیون کے ایک تازہ سروے کے مطابق ملک کے 77 فیصد شہری انتخابات کے انعقاد کے خلاف ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) کی شرکت کے بغیر یہ انتخابات ناقابل قبول ہوں گے۔ اس جائزے کے مطابق 37 فیصد ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔
تصویر: MUNIR UZ ZAMAN/AFP/Getty Images
کاروبارِ زندگی مفلوج
سڑکوں، ریلوے لائنوں اور آبی راستوں کی ناکہ بندی نے بنگلہ دیش کی معیشت اور عوام پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ڈھاکہ چیمبرز آف کامرس کے مطابق ایک دن کی ناکہ بندی سے ملکی معیشت کو 200 ملین ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ کسانوں کو اپنی مصنوعات منڈیوں تک پہنچانے اور ٹیکسٹائل ملوں کو اپنی مصنوعات بروقت روانہ کرنے میں مشکلات درپیش ہیں۔
تصویر: DW/Mustafiz Mamun
آزادانہ اور منصفانہ انتخابات؟
عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والی وزیر اعظم شیخ حسینہ (تصویر میں) اور اپوزیشن کے درمیان انتخابی عمل میں حال ہی میں متعارف کروائی جانے والی اصلاحات بھی وجہِ نزاع بنی ہوئی ہیں۔ حسینہ کے دورِ حکومت میں آئین میں ترمیم کرتے ہوئے انتخابات کے دوران ایک ایسی عبوری نگران حکومت کی تقرری سے متعلق شِق ختم کر دی گئی، جو انتخابات کے آزادانہ اور منصافنہ انعقاد کی ضمانت دیتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اپوزیشن سڑکوں پر
بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیاء (تصویر میں) کا موقف یہ ہے کہ ایک غیر جانبدار نگران حکومت کے بغیر انتخابات غیر قانونی ہوں گے۔ اس جماعت کی طرف سے انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل مؤثر ثابت ہوئی ہے اور اس کے حامی سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ بی این پی اپنی بنیاد پرست حلیف پارٹی جماعتِ اسلامی پر لگائی جانے والی پابندی پر بھی ناراض ہے۔
تصویر: DW/M. Mamun
جماعتِ اسلامی پر پابندی
شیخ حسینہ کی حکومت کی طرف سے مقرر کردہ انٹرنیشنل کرائمز ٹریبیونل نے 2013ء میں جماعتِ اسلامی کے سات رہنماؤں کو سزائے موت سنائی۔ بعد ازاں ہائیکورٹ نے اس جماعت کو کالعدم قرار دے دیا چنانچہ اب یہ جماعت انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی۔ اس کے سات رہنماؤں میں سے ایک عبدالقادر ملا کو، جسے 1971ء کی جنگِ آزادی کے دوران قتل عام اور آبروریزی کے لیے قصور وار قرار دیا گیا تھا، دسمبر میں پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: Reuters
آخری منٹ پر انتخابات میں شرکت کا اعلان
ملک کی تیسری بڑی جماعت جاتیہ پارٹی، جس کے قائد سابق آمر حسین محمد ارشاد (تصویر میں) ہیں، ماضی میں عوامی لیگ کی حلیف رہی ہے۔ اس جماعت نے ابھی جمعرات کو اپنا انتخابی منشور جاری کیا اور یہ عندیہ دیا کہ وہ انتخابات میں حصہ لے گی۔
تصویر: JEWEL SAMAD/AFP/Getty Images
ایک نشست، ایک امیدوار
آدھے سے زیادہ انتخابی حلقوں یعنی 300 میں سے 154 پر محض عوامی لیگ یا اُس کی کسی اتحادی جماعت کا کوئی ایک امیدوار ہی انتخاب لڑ رہا ہے۔ گویا یہ امیدوار ایک بھی ووٹ کاسٹ ہونے سے پہلے کامیاب ہو چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن بھی ابھی سے ان 154 امیدواروں کو ڈھاکہ میں ملکی قومی اسمبلی کے لیے منتخب قرار دے چکا ہے۔