1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستبنگلہ دیش

بنگلہ دیش: شیخ حسینہ کی عوامی لیگ پارٹی کا مستقبل کیا ہے؟

6 اکتوبر 2024

طویل عرصے تک حکمران رہنے والی شیخ حسینہ پرتشدد احتجاجی مظاہروں کے بعد اگست میں بھارت فرار ہو گئی تھیں۔ چند ماہ پہلے تک بنگلہ دیش کی اس طاقتور ترین جماعت کے اب سیاسی دفاتر اُجڑ چکے ہیں اور وہاں ویرانیوں کا ڈیرہ ہے۔

طویل عرصے تک حکمران رہنے والی شیخ حسینہ پرتشدد احتجاجی مظاہروں کے بعد اگست میں بھارت فرار ہو گئی تھیں
طویل عرصے تک حکمران رہنے والی شیخ حسینہ پرتشدد احتجاجی مظاہروں کے بعد اگست میں بھارت فرار ہو گئی تھیںتصویر: Kazi Salahuddin Razu/NurPhoto/IMAGO

بنگلہ دیش میں رواں برس جولائی اور اگست میں ہونے والی بدامنی کے دوران سینکڑوں مظاہرین ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ ان میں بہت سے وہ طلبہ بھی شامل تھے، جنہیں شیخ حسینہ کی وفادار سکیورٹی فورسز نے براہ راست فائرنگ کا نشانہ بنایا۔ اس طرح یہ کارروائیاں بنگلہ دیش کی حالیہ تاریخ میں مظاہروں کے خلاف مہلک ترین ثابت ہوئیں۔

اس وقت نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں ایک عبوری حکومت یہ ملک چلا رہی ہے اور اس میں اعلیٰ عہدوں پر دو طالب علم رہنما بھی شامل ہیں۔

ڈھاکہ کے نواحی علاقے میں حسینہ کی عوامی لیگ کا سابقہ ​​دفتر ویران پڑا ہے۔ ان کی حکومت کے خاتمے کے بعد پارٹی کی دیگر عمارتوں میں توڑ پھوڑ کی گئی جبکہ کچھ کو نذر آتش کر دیا گیا تھا۔

جہاں بنگلہ دیش نے شیخ حسینہ کے 15 سالہ دور اقتدار میں معاشی ترقی دیکھی، وہاں حسینہ پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات بھی عائد کیے گئے، جن میں ماورائے عدالت قتل اور مخالفین کی جبری گمشدگیاں بھی شامل ہیں۔

عوامی لیگ کے سیاسی منظر نامے سے غائب ہونے کے بعد سے اس پارٹی کے درجنوں ارکان پر پولیس کے ساتھ مل کر مظاہرین کے قتل میں ملوث ہونے کا الزامات عائد کیے جا چکے ہیں۔

بھارت سے شیخ حسینہ کی حوالگی کے مطالبات

بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل (آئی سی ٹی) کو حسینہ اور ان کے وفاداروں کے خلاف کئی شکایات موصول ہوئی ہیں، جن میں ان پر قتل اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ آئی سی ٹی نے ان الزامات کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔

بغاوت کی قیادت کرنے والے طلبہ نے مطالبہ کیا ہے کہ حسینہ کو مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے بنگلہ دیش واپس لایا جائے۔

بنگلہ دیشی میں رواں برس جولائی اور اگست میں ہونے والی بدامنی کے دوران سینکڑوں مظاہرین ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئےتصویر: Rajib Dhar/AP/picture alliance

جرمن انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اینڈ سسٹین ایبلٹی کی ایک سینئر محقق یاسمین لورخ کہتی ہیں، ''حسینہ کی حکومت بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، ماورائے عدالت قتل اور سیاسی مخالفین پر جبر کرنے جیسے واقعات میں ملوث ہے، جن کی تحقیقات اور ٹرائل ہونے چاہئیں۔‘‘

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بھارت اور عوامی لیگ کے درمیان قریبی تعلقات کو دیکھتے ہوئے ایسا نہیں لگتا کہ بھارتی حکومت شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش کے حوالے کرے گی۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تحقیقات آگے نہیں بڑھ سکتیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے موجودہ ''فیکٹ فائنڈنگ مشن‘‘ کی طرف سے شروعات ایک اچھی مثال ہے کیونکہ یہ ایک غیر جانبدار ادارہ ہے اور اور اس کا مقصد اُس ڈھانچے کی نشاندہی کرنا ہے، جس کی وجہ سے یہ خلاف ورزیاں ممکن ہوئیں۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے مطابق ''حقائق تلاش کرنے والے ایک مشن‘‘ کو بنگلہ دیش میں تعینات کیا گیا تھا تاکہ کریک ڈاؤن کے دوران سکیورٹی فورسز کی طرف سے دیگر زیادتیوں کے ساتھ ساتھ ضرورت سے زیادہ طاقت کے استعمال کے الزامات کا جائزہ لیا جا سکے۔

عوامی لیگ کے رہنما روپوش

شیخ حسینہ کے بھارت فرار ہونے کے بعد ہی پارٹی کے کئی ارکان کو گرفتار کر لیا گیا تھا جبکہ بہت سے روپوش ہو چکے ہیں۔ مقامی میڈیا کے مطابق عوامی لیگ کے کئی سینئر رہنما بھی دوسرے ملکوں میں فرار ہو گئے ہیں۔ ڈی ڈبلیو نے پارٹی کے کئی رہنماؤں سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے اس خوف کی وجہ سے بات کرنے یا ملنے سے انکار کر دیا کہ ان کے قیام کی جگہ سامنے آ سکتی ہے۔

اس وقت نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں ایک عبوری حکومت یہ ملک چلا رہی ہےتصویر: Mohammad Ponir Hossain/REUTERS

بنگلہ دیش کی نئی عبوری حکومت آزادانہ اورمنصفانہ انتخابات کے انعقاد سے قبل عدلیہ، پولیس اور مالیاتی اداروں میں اصلاحات کرنا چاہتی ہے۔ یہ مطالبہ بہت سی سیاسی جماعتوں اور طلبہ نے کیا تھا۔ کئی جماعتوں نے اصلاحاتی ایجنڈوں پر عبوری حکومت کے ساتھ بات چیت میں حصہ لیا ہے لیکن عوامی لیگ غیر حاضر ہی تھی۔

عوامی لیگ میں اصلاحات کا مطالبہ

تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ عوامی لیگ پارٹی کو کسی بھی دوسرے ریاستی سطح کے اصلاحاتی عمل میں حصہ لینے سے پہلے اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اس پر اپنے دور میں ریاستی اداروں کو تباہ کرنے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔

محقق یاسمین لورخ کہتی ہیں، ''شیخ حسینہ کی سربراہی میں عوامی لیگ کی سابق حکومت بڑے پیمانے پر جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں مصروف رہی ہے۔ اصلاحاتی عمل کا حصہ بننے کے لیے اسے مکمل طور پر اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہو گی۔‘‘

وہ کہتی ہیں، ''خود میں اصلاحات لانا عوامی لیگ کے لیے بہت مشکل ہو گا کیونکہ اس کے پاس خاندانی قیادت ہے جبکہ شیخ حسینہ اور ان کے خاندان نے ہمیشہ پارٹی پر بالادستی حاصل کی ہے۔‘‘

بنگلہ دیشی سیاسی تجزیہ کار زاہد الرحمان ملک اصلاحاتی عمل میں حسینہ واجد کی پارٹی کو شامل کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے۔ ان کا کہنا ہے، ''عوامی لیگ سمیت ہر اُس جماعت، جس نے تمام ریاستی اداروں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا، کا اصلاحاتی منصوبے میں شامل ہونا مضحکہ خیز ہو گا۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ''میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس جماعت پر پابندی نہ لگائی گئی تو اسے آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے سے روکنا سوالات کو جنم دے گا۔‘‘

رحمان کے خیال میں شیخ حسینہ کی زندگی میں ان کی پارٹی کی بحالی کا کوئی امکان کم ہی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ''شیخ حسینہ کے ساتھ یہ داغ ہمیشہ رہے گا کہ وہ ملک سے فرار ہو گئی تھیں۔ مجھے لگتا ہے کہ انہیں بنگلہ دیش کے حوالے نہیں کیا جائے گا، اس لیے وہ اپنی زندگی کے آخری سال جلاوطنی میں گزاریں گی۔‘‘

عرفات السلام (ا ا/ ر ب)

بنگلہ دیش، کیا پولیس پر لوگوں کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے؟

03:27

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں