1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش: طلبہ اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں درجنوں ہلاک

19 جولائی 2024

بنگلہ دیش میں طلباء کے مظاہروں کے درمیان پولیس کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں اب تک تقریباً 40 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ قومی ٹی وی اسٹیشن سمیت کئی سرکاری اداروں کو آگ لگا دی گئی جبکہ انٹرنیٹ سروسز معطل ہیں۔

ڈھاکہ میں سکیورٹی فورسزمظاہرین کو گرفتار کرتے ہوئے
احتجاجی تحریک کے ایک رابطہ کار آصف محمود نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بنگلہ دیش کی حکومت نے پرامن مظاہروں پر حملہ کرنے کے لیے اپنے کارکنوں اور سکیورٹی فورسز کو استعمال کیا۔تصویر: Abdullah Mohammad/AFP

بنگلہ دیش میں جمعرات کے روز طلباء اور پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں کم از کم تیس مزید افراد ہلاک ہوئے اور اس طرح حکام نے اس تشدد میں اب تک  39 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے۔ گزشتہ روز تشدد کا مرکز دارالحکومت ڈھاکہ تھا، جہاں سینکڑوں افراد زخمی بھی ہوئے۔

بنگلہ دیش میں طلبہ کے مظاہرے جاری، موبائل انٹرنیٹ سروس معطل

سینکڑوں افراد اس وقت زخمی ہوئے جب پولیس نے مظاہرین کے گروپوں کو توڑنے کے لیے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں چلائیں۔ ادھر مظاہرین نے گاڑیوں، پولیس چوکیوں اور دیگر حکومتی اداروں کو نذر آتش کر دیا۔

بنگلہ دیش میں پرتشدد مظاہرے، تمام جامعات کی بندش کی ہدایت

سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف مظاہرہ کرنے والے طلبہ، سکیورٹی اہلکاروں اور حکومت کے حامی طلبہ کارکنوں کے درمیان مسلسل جھڑپوں کی وجہ سے بڑے پیمانے تشدد نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

بنگلہ دیش: ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف طلبہ کے پرتشدد مظاہرے

طلبہ سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف کئی دنوں سے احتجاجی مظاہرے کر رہے تھے، تاہم حالیہ دنوں میں تشدد میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔

ٹیلی ویژن کے ہیڈ آفس پر دھاوا

حکومت نے ٹیلی فون اور انٹرنیٹ سمیت تمام مواصلاتی رابطے منقطع کر دیے ہیں جبکہ مظاہرین نے ملک کے سرکاری نشریاتی ادارے کے ہیڈ آفس پر حملہ کر کے اسے آگ لگا دی۔

بنگلہ دیش کے 'بدنام زمانہ' جلاّد شاہ جہاں بھوئیاں چل بسے

بنگلہ دیش ٹی وی (بی ٹی وی)کے تصدیق شدہ فیس بک پیج پر ایک پوسٹ میں کہا گیا ہے کہ ''تباہ کن آگ تیزی سے پھیل رہی ہے۔'' براڈکاسٹر نے یہ بھی کہا کہ ''ہم فائر سروس سے تعاون چاہتے ہیں۔ بہت سے لوگ اندر پھنسے ہوئے ہیں۔''

بنگلہ دیشی وزیراعظم پندرہ دنوں کے اندر دوسری مرتبہ بھارت میں

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بی ٹی وی کے ایک اہلکار کے حوالے سے اطلاع دی کہ سینکڑوں مظاہرین نے احاطے پر دھاوا بول دیا اور کم از کم 60 گاڑیوں اور ایک دفتر کی عمارت کو آگ لگا دی۔

کیمپس کے مظاہرین پر سکیوٹی اہلکاروں کے مسلسل حملوں کے جواب میں بدھ کی رات کو طلبہ نے اعلان کیا تھا کہ جمعرات کے روز وہ ''مکمل شٹ ڈاؤن'' نافذ کریں گےتصویر: Habibur Rahman/IMAGO/ABACAPRESS

اس واقعے سے قبل بنگلہ دیش کے وزیر قانون انیس الحق نے بتایا تھا کہ وزیر اعظم شیخ حسینہ نے انہیں مظاہرین کے ساتھ بات چیت کے لیے میٹنگ کے لیے کہا اور اگر مظاہرین راضی ہوں تو وہ ان سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔

شدید گرمی، بنگلہ دیشی گارمنٹ فیکٹری ملازمین بیمار پڑنے لگے

کیمپس کے مظاہرین پر سکیوٹی اہلکاروں کے مسلسل حملوں کے جواب میں بدھ کی رات کو طلبہ نے اعلان کیا تھا کہ جمعرات کے روز وہ ''مکمل شٹ ڈاؤن'' نافذ کریں گے اور جمعرات کو صرف ہنگامی خدمات کی اجازت دی جائے گی۔

انسانی حقوق کے گروپوں نے حسینہ کی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ اپنی طاقت کو مستحکم کرنے اور اختلاف رائے کو دبانے کے لیے ریاستی اداروں کا غلط استعمال کر رہی ہیں۔

بنگلہ دیش میں طلبہ احتجاج کیوں کر رہے ہیں؟

بنگلہ دیش کے طلباء سن 1971 میں پاکستان سے جنگ آزادی میں لڑنے والوں کے خاندانوں کے لیے سرکاری ملازمتوں میں مختص 30 فیصد کوٹہ کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ ریزرویشن کی وجہ سے ملک میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری پھیل رہی ہے۔ بنگلہ دیش کی 170 ملین کی مجموعی آبادی میں تقریباً 32 ملین لوگ ایسے بھی ہیں، جو کام یا تعلیم سے محروم ہیں۔

جرمنی میں مقیم بنگلہ دیشی انسانی حقوق کے کارکن سادات تسنیم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ روزگار کی منڈی میں تناؤ کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔

انہوں نے کہا، ''بڑھتی ہوئی مہنگائی اور روز گارسے متعلق بے یقینی صورتحال میں نوجوانوں کو محفوظ سرکاری ملازمتوں کی امید تھی۔ لیکن موجودہ کوٹہ سسٹم کی وجہ سے ایک غیر منصفانہ رکاوٹ کا اضافہ ہوا ہے۔''

حکومت پر طلبہ تحریک کو کچلنے کا الزام

احتجاجی تحریک کے ایک رابطہ کار آصف محمود نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بنگلہ دیش کی حکومت نے پرامن مظاہروں پر حملہ کرنے کے لیے اپنے کارکنوں اور سکیورٹی فورسز کو استعمال کیا۔

انہوں نے کہا، ''ہمیں پچھلے تین دنوں سے بڑے پیمانے پر حملوں کا سامنا ہے۔ مظاہرین کو بے دردی سے قتل کیا جا رہا ہے۔'' 

انہوں نے کہا، ''طلبہ پرامن طریقے سے اپنے مطالبات کو پورا کروانے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن حکومت نے ان کے منطقی مطالبات کو سننے کے بجائے احتجاج پر کریک ڈاؤن کا انتخاب کیا۔''

واضح رہے کہ سن 2018 میں ایک عدالتی حکم نامے کے بعد بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم پر عارضی روک لگا دی گئی تھی، لیکن گزشتہ ماہ ملک کی ایک ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے کوٹہ نظام دوبارہ بحال کر دیا تھا، جس کے بعد طلبہ نے احتجاج کا آغاز کیا۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ اس کوٹے سے وزیر اعظم شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ کے لوگوں کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔ یہ جماعت بنگلہ دیش کی پاکستان سے آزادی کی جنگ میں سرگرم تھی۔

اس حوالے سے بدھ کو حسینہ واجد نے ایک تقریر کے دوران کہا کہ ان مظاہروں میں ہونے والی ہلاکتوں کی تحقیقات کے لیے حکومت ایک عدالتی پینل تشکیل دے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ سات اگست کو سپریم کورٹ میں کوٹہ سسٹم کی بحالی کے خلاف حکومت کی درخواست کی سماعت ہو گی۔ انہوں نے طلبہ سے اپیل کی کہ اس درخواست پر فیصلہ آنے تک وہ صبر کا مظاہرہ کریں۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز، اے پی)

بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں سے جڑا تنازعہ

02:06

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں