1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستبنگلہ دیش

بنگلہ دیش: عبوری سیٹ اپ میں اہم کھلاڑی کون ہوں گے؟

8 اگست 2024

بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شی‍خ ‍حسینہ کی ڈرامائی تنزلی کے بعد ملک ب‍‍حرانی حالت سے دوچار ہے۔ ایسے میں یہ سوال انتہائی اہم ہے کہ آئندہ مہینوں میں بنگلہ دیشی سیاست کی تشکیل میں ممکنہ طور پر کون اہم کردار ادا کرے گا۔

Bangladesch Dhaka | Demonstranten stürmen Palast von Sheikh Hasina
تصویر: Mohammad Ponir Hossain/REUTERS

کئی ہفتوں سے جاری پرتشدد بدامنی کے بعد بنگلہ دیش سیاسی گرداب میں ڈوب گیا ہے، جس کا اختتام ملک میں طویل عرصے تک وزیر اعظم کے عہدے پررہنے والی شیخ حسینہ کے پیر کو اچانک اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر پڑوسی ملک بھارت فرار ہونے پر ہوا۔

اس کے بعد سے کوششیں جاری ہیں کہ ایک عبوری انتظامیہ تشکیل دی جائے جو نئی پارلیمنٹ کے انتخاب کے لیے انتخابات ہونے تک جنوبی ایشیائی ملک کو چلائے گی۔

بنگلہ دیش: نوبل انعام یافتہ محمد یونس عبوری حکومت کے سربراہ

بنگلہ دیش: فوج کی قیادت یا حمایت والی حکومت قبول نہیں، طلبہ رہنما

حسینہ مخالف ت‍‍حریک کی قیادت کرنے والے طلبہ رہنماؤں کے مطالبات کے بعد بنگلہ دیش کے صدر محمد شہاب الدین نے نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو عبوری حکومت کی سربراہی کے لیے مقرر کیا ہے۔

تاہم، ایک من‍ظم بند حکومت کے بارے میں بہت کچھ واضح نہیں ہے۔ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ فوج انتظامیہ میں کیا کردار ادا کرے گی۔

لیکن یونس نے کہا ہے کہ وہ "چند مہینوں میں" انتخابات کروانا چاہتے ہیں۔

یہاں آپ کو ان لوگوں کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے جو آنے والے مہینوں میں ملک کی سیاست میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔

محمد یونس عبوری سربراہ کا حلف لینے کے لیے یورپ سے آج ڈھاکہ پہنچ رہے ہیںتصویر: Abdul Saboor/REUTERS

عبوری رہنما محمد یونس

چوراسی سالہ محمد یونس ایک سماجی کاروباری، بینکر، ماہر معاشیات اور سول سوسائٹی کے رہنما ہیں۔

انہوں نے اور گرامین بینک جس کی انہوں نے 1980 کی دہائی میں بنیاد رکھی تھی، نے غریب لوگوں، خاص طور پر خواتین کی مدد کے لیے مائیکرو فنانس کے استعمال کا آغاز کیا۔

شیخ حسینہ کے متعلق ابھی کچھ بھی طے نہیں ہوا ہے، بھارت

بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے استعفیٰ دے دیا، فوجی حکام

غربت کے خلاف لڑائی کے اعتراف میں  یونس اور گرامین بینک کو مشترکہ طور پر 2006 میں امن کا نوبل انعام حاصل دیا گیا تھا۔

حسینہ کے دور حکومت میں، یونس کو مبینہ بدعنوانیوں کی تحقیقات کے ایک سلسلے کا سامنا کرنا پڑا، جسے انہوں نے اور ان کے حامیوں نے "سازشی مہم" قرار دیا۔

یونس نے خاص طور پر نوجوانوں اور تعلیم یافتہ لوگوں میں اچھی مقبولیت حاصل کی۔ انہوں نے طلباء کے احتجاج کے آغاز سے ہی ان کی بھرپور حمایت کی تھی۔

ان کی مقبولیت، وسیع قبولیت اور بین الاقوامی شناخت کو طلبہ رہنماؤں نے بنگلہ دیش کا عبوری رہنما نامزد کرنے کے مطالبے کی وجہ قرار دیا ہے۔

واشنگٹن میں واقع ووڈرو ولسن سینٹر میں ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے کہا کہ یونس کی تقرری ایک "سمجھدار اقدام" ہے۔

انہوں نے کہا، "یونس  بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ اور قابل احترام شخصیت ہیں، اور اپنے طور پر ایک انتہائی کامیاب پیشہ وربھی ہیں،"

کوگل مین کا کہنا تھا،"لیکن وہ حالیہ برسوں میں ایک سیاسی رہنما بن گئے کیونکہ وہ شیخ حسینہ کی حکومت کے سخت ناقد تھے اور حسینہ کے مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن کا سب سے بڑا ہدف تھے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "سابق حکومت اور اس کے حامیوں کو یہ اقدام پسند نہیں آئے گا۔" "اور ہو سکتا ہے کہ بھارت کو بھی یہ پسند نہ آئے۔ لہٰذا اسے ایسے نازک سیاسی لمحے میں احتیاط سے سنبھالنے کی ضرورت ہو گی۔"

اگرصحت نے اجازت دی تو سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا سیاست میں واپس لوٹ سکتی ہیںتصویر: A.M. Ahad/picture alliance/AP Photo

اپوزیشن لیڈر خالدہ ضیا

اٹہتر سالہ بیگم خالدہ ضیاء بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی سربراہ ہیں، جو ملک کی دو اہم سیاسی جماعتوں میں سے ایک ہے۔

وہ دو بار 1991 سے 1996 تک اور پھر 2001 سے 2006 تک وزیر اعظم رہ چکی ہیں۔

ضیا اور حسینہ کو ایک دوسرے کا حریف سمجھا جاتا ہے۔

ضیا کو 2018 میں بدعنوانی کے الزام میں سزا سنائی گئی تھی، لیکن ان کے حامیوں کا کہنا تھا کہ بدعنوانی کے الزامات سیاسی طور پر ان کو عہدے سے دور رکھنے کی کوشش تھی۔

مارچ 2020 میں ان کی صحت خراب ہونے پر حکومت نے ضیا کو جیل سے رہا کرنے کی اجازت دی لیکن انہیں ڈھاکہ میں اپنے گھر تک محدود کر دیا۔

منگل کو ضیا کو نظر بندی سے بھی رہا کر دیا گیا۔

جرمن انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اینڈ سسٹین ایبلٹی کی ایک سینئر ریسرچر جیسمین لورچ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایسا لگتا ہے کہ خالدہ ضیاء دوبارہ سیاست میں آ جائیں گی، اگر ان کی صحت اجازت دیتی ہے۔"

لورچ کا کہنا تھا کہ شیخ حسینہ کی حکمرانی کے بعد عوامی لیگ بدنام ہوگئی ہے اور چونکہ بی این پی بنگلہ دیش کی دو اہم سیاسی جماعتوں میں سے ایک ہے اس لیے اس کے پاس کھوئی ہوئی زمین کو دوبارہ حاصل کرنے کا موقع ہے۔

انہوں نے کہا، "بی این پی پچھلے سالوں میں جبر کی وجہ سے کمزور ہوئی ہے۔ تاہم ملک بھر میں اس کے پارٹی ڈھانچے، اراکین اور پیروکار موجود ہیں۔"

"اگر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوتے ہیں تو، بنگلہ دیشی سیاست میں حکومت مخالف جذبات  کی وجہ سے بی این پی اب بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہے اور اس وجہ سے کہ بہت سے لوگ اسے (عوامی لیگ) کے واحد منظم متبادل کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔"

لیکن لورچ کے مطابق بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو بی این پی کے اقتدار کے دور کے خراب ریکارڈ کی وجہ سے اس پر اعتماد نہیں کرتے۔

خالدہ ضیاء اور بی این پی کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ جب وہ اقتدار میں تھے، تو انہوں نے بھی عوامی لیگ جیسی زیادتیوں کا ارتکاب کیا تھا۔ جب کہ طلبہ کی تحریک سے پتہ چلتا ہے کہ بنگلہ دیشی معاشرے میں بہت سے طبقے بنیادی تبدیلی کے خواہاں ہیں۔

آرمی چیف وقار الزماں نے مبینہ طور پر شیخ ‍حسینہ سے دوری بنالی تھیتصویر: DW

آرمی چیف وقار الزماں

جنرل وقار الزماں اس سال جون میں تین سال کی مدت کے لیے بنگلہ دیش کی فوج کے سربراہ بنائے گئے۔

اٹھاون سالہ وقار الزماں شیخ حسینہ کی برطرفی کے بعد اچانک عوام کی توجہ کا مرکز بن گئے۔

زماں کو معزول وزیراعظم کے قریبی ساتھی کے طور پر جانا جاتا تھا اور وہ ان کے دور کے رشتہ دار بھی ہیں۔

لیکن مبینہ طور پر انہوں نے حسینہ کی حمایت نہیں کی ، جس کی وجہ سے انہیں ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ جنرل زماں نے گزشتہ چند دنوں میں مختلف سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی کے گروپوں اور طلبہ کے رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے کہ ملک کے مسقبل کے لیے کون سا راستہ اختیار کرنا ہے۔

کوگل مین کے مطابق، "فوجی سربراہ کے لئے یہ ایک مشکل گھڑی ہے۔ انہوں نے طویل عرصے تک حسینہ کی حمایت کی اور ان کا ان سے خاندانی تعلق ہے، لیکن ان کا ادارہ کریک ڈاؤن میں گھسیٹے جانے پر بے چین تھا۔"

انہوں نے مزید کہا، "زمان نے ممکنہ طور پر نوشتہ دیوار بھی پڑھ لیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ فوج کے لیے حسینہ کے بعد کوئی بڑا سیاسی کردار ادا کرنے کی عوام میں زیادہ خواہش نہیں ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فوج عبوری حکومت کے بارے میں ہونے والی بات چیت میں موجود ہوگی،اور یہ امید کرے گی کہ اسے بھی پچھلی نشست میں جگہ مل جائے۔"

جنرل زماں نے محمد یونس کی مجوزہ ‍حلف برداری کو "خوبصورت جمہوری عمل"  کہا ہے۔

ناہید اسلام طلبہ ت‍‍حریک کے اہم رہنماوں میں سے ایک ہیںتصویر: REUTERS

طلبہ رہنما ناہید اسلام

سماجیات کے طالب علم ناہید اسلام گزشتہ چند مہینوں کے دوران ملک میں طلبہ تحریک کے ایک اہم چہرے کے طور پر ابھرے ہیں۔

چھبیس سالہ نوجوان کو اکثر بنگلہ دیشی پرچم پیشانی پرلپیٹے عوامی مقامات پر دیکھا جاتا ہے۔

احتجاج کے دوران انہوں نے سکیورٹی فورسز پر انہیں اغوا کرنے اور تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام لگایا۔

ناہیداسلام، جو عوام میں غیر جذباتی لیکن مضبوطی سے بات کرتے ہیں، نے کہا کہ طلباء فوج کی قیادت میں کسی بھی حکومت کو قبول نہیں کریں گے، اور عبوری حکومت کی قیادت کے لیے یونس کا نام پیش کیا۔

انہوں نے کہا کہ طلباء نے صدر کے ساتھ شیئر کی گئی ابتدائی فہرست میں عبوری حکومت کے لیے 10-15 ارکان کی سفارش بھی کی ہے۔

ناہید اسلام نے کہا کہ عبوری حکومت کے لیے طلباء کی سفارشات میں سول سوسائٹی کے اراکین اور طلباء کے نمائندے شامل ہیں۔

شیخ حسینہ کے بیٹے سجیب واجد جوئےتصویر: DW

حسینہ کے بیٹے سجیب واجد جوئے


شیخ حسینہ کے مستعفی ہونے اور ملک سے فرار ہونے کے بعد سے، ان کے بیٹے سجیب واجد جوئے،جو عوامی لیگ پارٹی میں کوئی سرکاری عہدہ نہیں رکھتے لیکن حسینہ کے ممکنہ جانشین کے طور پر دیکھے جاتے ہیں، واحد شخص کے طور پر سامنے آئے ہیں جو ‍‍حسینہ خاندان اور پارٹی کی جانب سے عوامی سطح پر بات کر رہے ہیں۔

انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے امور میں حسینہ کے مشیر کے طور پر کام کرنے والے 53 سالہ کاروباری جوئے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نہ ہی وہ اور نہ ہی ان کے خاندان کے کسی دوسرے فرد نے پارٹی کا سربراہ بننے کا ارادہ کیا ہے۔

جوئے، جو امریکی ریاست ورجینیا میں مقیم ہیں لیکن اکثر بنگلہ دیش جاتے رہتے تھے، نے بتایا کہ ان کے زیادہ تر رشتہ دار طویل عرصے سے بیرون ملک مقیم ہیں اور اپنی اپنی زندگیوں میں خوش ہیں۔

بڑے پیمانے پر مظاہروں کے ذریعے حسینہ کی بے دخلی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے، اگر بنگلہ دیش کے لوگ ایسی حرکت کرتے ہیں تو ہمارے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔

ج ا ⁄  ص ز (عرفات الإسلام)

شیخ حسینہ، ایک سورج جو ڈوب گیا

01:46

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں