بنگلہ دیش: عوام کے ووٹ عوامی لیگ کے لئے
30 دسمبر 2008سات برسوں میں ہونے والے پہلے عام انتخابات میں بڑی سیاسی جماعت عوامی لیگ کو عوام نے دِل کھول کر ووٹ دیئے ہیں۔ عوامی لیگ کی لیڈر اور سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی قیادت میں گرینڈ آلائنس کو 300 نشستوں والی قومی اسمبلی میں سے 240پر کامیابی حاصل ہو چکی ہے۔ عوامی لیگ کے اتحاد میں سابق آمر حسین محمد ارشاد کی جاتیہ پارٹی سمیت کچھ اور چھوٹی پارٹیاں شامل ہیں۔
اِن میں عوامی لیگ کو قومی اسمبلی میں ایک سو پچہتر سیٹوں کے ساتھ سادہ اکثریت سے زائد نشستیں حاصل ہو چکی ہیں۔ یہ سادہ اکثریت حکومت سازی کے لئے بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ اپنے اتحادیوں کے ساتھ شیخ حسینہ کو دو تہائی نشستیں حاصل ہو چکی ہیں۔ شیخ حسینہ اِس سے پہلے سن 1996 میں اپنے ملک کی وزیر اعظم رہ چکی ہیں۔ اِس کامیابی سے اُن کے دوسری بار وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔
بنگلہ دیش کے الیکشن کمیشن کے سیکریٹری ہمایوں کبیر نے بھی عوامی لیگ کی کامیابی کی تصدیق خبر رساں ادارے ایجنسی فرانس پریس سے بات کرتے ہوئے کہی ۔ ان انتخابات میں ووٹرز ٹرن آؤٹ ستر فی صد تک رہا۔
امن و امان کو خراب کرنے والا کوئی بڑا واقعہ سامنے نہیں آیا البتہ پچیس کے قریب افراد ووٹرز کو رشوت دینے کے الزام میں ضرور گرفتار کئے گئے ہیں۔ یورپی یونین نے انتخابات کے پرامن انعقاد پر اطمنان کا اظہار یا ہے۔
بنگلہ دیش کی دوسری اہم سیاسی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کو بڑی شکست کا سامنا ہے۔ بی این پی کے ساتھ اِس الیکشن میں بطور اتحادیوں کے دیگر چار جماعتیں بھی تھیں جن میں سے ایک جماعت اسلامی ہے، اِس چار دلیہ جوٹ یا فور پارٹی آلائنس کو الیکشن میں ناقابلِ یقین شکست کا سامنا ہے۔ اِس اتحاد کو غیر سرکاری نتائج کے مطابق صرف ستائیس سیٹیں حاصل ہوئی ہیں۔ کئی اضلاع سے تو اِس اتحاد کا مکمل صفایا ہو گیا ہے ۔
دو سابق وزرائے اعظم کی سیاسی جماعتوں میں عوامی جوش و خروش کے تناظر میں معلق پارلیمنٹ کے وجود میں آ نے کا امکان پہلے ہی ظاہر کیا گیا تھا۔ یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ الیکشن میں عوامی لیگ اپنی مد مقابل بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی سے کچھ زیادہ سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گی مگر یہ اتنی نہیں ہوں گی کہ وہ اکیلی حکومت سازی کرسکے۔ مگر یہ تمام اندازے اور تجزیے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں اور عوامی لیگ کی انتہائی اعلیٰ کامیابی سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بنگلہ دیش کے ووٹرز نے لبرل قوتوں کو کامیاب کرتے ہوئے دائیں بازو یا مذہب کی جانب ہلکا سا جھکاؤ رکھنے والی سیاسی قوتوں کو مسترد کردیا ہے۔
کچھ غیر ملکی ماہرین کے خیال میں کامیاب ہونے والی قوتیں اب اپنے ملک میں مذہبی انتہاپسندی کے فروغ کو روکنے میں صرف اُسی صورت میں کامیاب ہو سکتی ہیں اگر وہ اپنے الیکشن چارٹر پر خلوصِ نیت سےعمل پیرا ہوں۔ دوسری جانب ایسے خدشات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ لبرل قوتوں کی کامیابی سے انتہاپسند قوتیں ملکی امن و امان خراب کرنے کی کوشش بھی کرسکتی ہیں۔ اِن سب کے با وجود بنگلہ دیش کی اقتصادی بوجھ تلی عوام کو معاشی اور سماجی حالات میں ایک نئی صبح کا انتظار ہے۔