1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش فیکڑی حادثہ، متاثرین مدد کے تاحال منتظر

عاطف توقیر28 اگست 2013

بنگلہ دیش میں ایک گارمنٹ فیکٹری میں حادثے کے چار ماہ گزر جانے کے باوجود متاثرین اب تک اس سلسلے میں ہرجانے کی رقم کے منتظر ہیں۔

تصویر: Reuters

بنگلہ دیش میں ٹیکسٹائل کی صنعت سے جڑے تقریباﹰ چار ملین افراد کئی طرح کے مسائل کے باوجود اپنے شب و روز صرف کرتے ہوئے ملک کے مستقبل اور اقتصادی ترقی کے لیے کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں سلمیٰ بھی شامل ہے، جو اپنی نو ماہ کی بیٹی کو گاؤں میں اپنے والدین کے ہاں چھوڑ کر دارالحکومت ڈھاکا میں بہتر زندگی کی تلاش میں گارمنٹ کے شعبے میں کام ڈھونڈنے پہنچی۔

ایک ڈچ چرچ تنظیم آئی سی سی او کی بنائی گئی ویڈیو میں سلمیٰ نے بات چیت کرتے ہوئے رواں برس 24 اپریل کو ڈھاکا کی رانا پلازا نامی عمارت کے منہدم ہونے اور اپنی ریڑھ کی ہڈی میں چوٹ پہنچنے کے بعد اپاہج ہو جانے کی داستان سنائی۔ سلمیٰ کے بقول اب میں کام نہیں کر سکتی، اب میں زندگی گزارنے کے لیے پیسہ کیسے کماؤں گی۔

اس حادثے میں ایک ہزار افراد ہلاک ہوئے جب کہ زخمی ہونے والوں کی تعداد کہیں زیادہ تھیتصویر: Reuters

اس غیرقانونی طور پر تعمیر ہونے والی عمارت میں قائم گارمنٹ فیکٹریاں قائم تھیں اور اس عمارت کے انہدام کی وجہ سے مجموعی طور پر 1134 افراد ہلاک ہوئے۔ اب تک یہ بات واضح نہیں کہ اس سانحے میں کل کتنے افراد زخمی ہوئے۔

انڈسٹریل گلوبل یونین کی جنرل سیکرٹری جیرکی رائینا کے مطابق اس حادثے میں زخمی ہونے والے افراد کی تعداد ڈھائی ہزار کے قریب تھی۔ اس تنظیم کا مطالبہ ہے کہ حادثے میں زخمی ہونے والے افراد کو بین الاقوامی مزدور تنظیم ILO کے طے کردہ ضابطوں کے مطابق ہرجانہ ادا کیا جائے، ’ہمارے خیال میں متاثرین کو پچیس برس کی تنخواہ ادا کی جانی چاہیے۔‘

انڈسٹریل گلوبل یونین ایک سو چالیس ممالک میں کام کرنے والی تنظیم ہے جس کے ممبران کی تعداد پچاس ملین ہے۔ اس تنظیم نے رانا پلازہ میں قائم فیکٹریوں سے مال تیار کروانے والی کمپنیوں کو گفتگو کے لیے مدعو کیا ہے، تاکہ ان سے متاثرین کے لیے ہرجانے کے حوالے سے بات چیت ہو۔ اس سلسلے میں ملاقات ستمبر میں ہونا ہے۔ ان مذاکرات کو کلین کلوتھس کیمپین نامی ڈچ تنظیم کا تعاون بھی حاصل ہے، جو عالمی سطح پر گارمنٹ کی صنعت میں مزدوروں کے لیے بہتر ماحول پیدا کرنے کے حوالے سے کام کر رہی ہے۔

لیبر یونین نے مغربی کمپنیوں سے کہا ہے کہ وہ ہرجانے کی رقم کا 45 فیصد مہیا کریں، جبکہ بنگلہ دیشی فیکٹری مالکان اور حکومت کو باقی ماندہ سرمایہ مہیا کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ انڈسٹریل تنظیم کے مطابق اس سلسلے میں متاثرین یا ان کے لواحقین کے لیے مجموعی طور پر تقریباﹰ 72 ملین ڈالر کی رقم درکار ہو گی۔

کلین کلوتھس کیمپین کی ویب سائٹ پر ان کمپنیوں کے نام بھی جاری کیے گئے ہیں، جنہیں اس سلسلے میں ہرجانہ ادا کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ ان کمپنیوں میں بینیٹن، مینگو، وال مارٹ، والٹ ڈزنی کمپنی، پری مارک اور جرمن اداروں کارل راکر، ایڈلر موڈے میرکٹے اور کِک شامل ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں