1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش، ملبوسات بنانے والی فیکٹریوں کے ملازموں کا احتجاج

عدنان اسحاق 23 ستمبر 2013

بنگلہ دیش کی گارمنٹ فیکٹریوں کے ملازموں کی حالت زار کا موضوع گزشتہ کچھ عرصے سے اہمیت اختیار کیے ہوئے ہے۔ ان فیکٹری ملازموں نے ایک مرتبہ پھر حکومت کی بے حسی پر صدائے احتجاج بلند کی ہے۔

تصویر: JEWEL SAMAD/AFP/Getty Images

بنگلہ دیش کی گارمنٹ فیکٹریوں کے ملازمین شدید غصے میں ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ان کی کم از کم تنخواہ سو ڈالر ماہانہ کے برابر کی جائے۔ اپنے مطالبات کے حق میں ہزاروں افراد دارالحکومت ڈھاکہ کی سڑکوں نکل آئے ہیں۔ غازی پور کے صنعتی علاقے کے پولیس سربراہ عبدالمتین نے بتایا کہ تقریبًا دو لاکھ افراد مظاہرے میں شریک ہوئے۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ غازی پور کی فیکٹریوں میں مغربی ممالک کے بڑے بڑے اداروں کے لیے ملبوسات تیار کیے جاتے ہیں اور اس علاقے کی تین سو فیکٹروں میں کام معطل رہا۔

پولیس کے مطابق ان میں چند کارخانوں میں کام شروع ہوا تھا تاہم زور زبردستی کرتے ہوئے انہیں بند کرا دیا گیا۔ مزید بتایا گیا ہے کہ حالات کی کشیدگی کو دیکھتے ہوئے پولیس نے مشتعل ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے برسائے اور لاٹھی چارج کیا۔ اس دوران کارخانوں میں کام کرنے والوں نے فیکٹریوں پر بھی پتھراؤ کیا۔ ان مظاہروں کے دوران پولیس سے جھڑپوں کے سبب متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے اور زخمیوں میں پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

تصویر: Reuters

فیکٹری مالکان کا کہنا ہے کہ آج پیر کے روز ہونے والے مظاہرے 2010ء کے بعد سے شدید ترین احتجاج تھا۔ 2010ء میں اسی طرح کئی ہفتوں تک مظاہرے جاری رہے تھے، جس کے بعد حکومت اور فیکٹری مالکان نے کم از کم ماہانہ اجرت تین ہزار ٹکہ یعنی 38 ڈالر کر دی تھی۔

بنگلہ دیش میں گارمنٹ فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کو دنیا بھر میں سب سے کم تنخواہ دی جاتی ہے اور اکثر انہیں ہر ہفتے اسی گھنٹے تک فیکٹری میں گزارنے پڑتے ہیں۔ ایک مزدور یونین کے رہنما شاہد الاسلام کے بقول جب تک تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا جاتا مظاہرے جاری رہیں گے۔ ان کے بقول انہوں نے آٹھ ہزار ٹکہ یعنی سو ڈالر ماہانہ کا مطالبہ کیا ہے اور ایک بہتر زندگی گزرانے کے لیے ایک ملازم کو اس سے بھی زیادہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اپریل میں پیش آنے والے حادثے کے بعد بہت سے وعدے کیے گئے تھے، لیکن ابھی نہ تو تنخواہ بڑھی ہے اور نہ ہی حالات میں کوئی اور مثبت تبدیلی آئی ہے۔ ان کے بقول صرف اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ کم از کم تنخواہوں کے علاوہ یونین کی جانب سے دیگر مطالبات کا جائزہ لینے کے لیے اس سال جون میں حکومت نے ایک پینل تشکیل دیا تھا ۔

رواں برس مئی میں بنگلہ دیش میں ملبوسات کی ایک فیکٹریوں کے منہدم ہونے پر تقریباً گیارہ سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس واقعہ کے بعد ڈھاکہ حکومت نے کارکنوں کے تحفظ اور سلامتی کے لیے کئی اقدامات اٹھانے کے وعدے تھے۔ تاہم اس کے بعد بھی گارمنٹ فیکٹریوں میں چھوٹے بڑے کئی حادثات بھی رونما ہو چکے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں