بنگلہ دیش: میڈیا کی ترقی لیکن صحافتی آزادی کا شدید فقدان
16 جولائی 2013ذرائع ابلاغ کو کسی بھی ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش میں ریاست کا یہی ستون حملوں کی زد میں ہے۔ دنیا کے کم ترقی یافتہ ملکوں میں سے بنگلہ دیش ایسی ریاستوں میں شمار ہوتا ہے جہاں کام کرنے والے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اداروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
پچاس قومی روزنامے جن میں سے آٹھ انگریزی میں شائع ہوتے ہیں، پچیس ٹیلی وژن چینل، سات ایف ایم ریڈیو اسٹیشن، چودہ کمیونٹی ریڈیو چینلز اور انگریزی اور بنگالی میں شائع ہونے والے تین سو سے زائد علاقائی میگزین۔ یہ اعداد و شمار بظاہر ایک شاندار صورت حال کی نشاندہی کرتے ہیں۔
لیکن ان خوبصورت حقائق کے پیچھے ایک تاریک اور تکلیف دہ حقیقت بھی ہے۔ صحافیوں کے لیے صحافتی آزادی کا تقریبا مکمل فقدان۔ بنگلہ دیشی صحافی روزانہ ایک ایسے ماحول میں اپنے فرائض انجام دیتے ہیں جس میں انہیں خوف، ناانصافیوں اور زیادتیوں کا مسلسل سامنا رہتا ہے۔
نیو یارک میں قائم صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی CPJ اور ایسے ہی دیگر بین الاقوامی اداروں کے مطابق صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں بنگلہ دیش 19 ویں نمبر پر ہے۔
اس جنوبی ایشیائی ملک میں صحافیوں کو سیاسی دباؤ، سنسرشپ، گرفتاریوں، حبس بےجا اور تشدد کا سامنا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ ناپسندیدہ میڈیا اداروں کا بند کرا دیا جانا اور ماورائے عدالت ہلاکتیں بھی بنگلہ دیش میں میڈیا کو درپیش حالات کی تکلیف دہ لیکن اہم ترین مثالیں ہیں۔ بنگلہ دیش میں ریاست کے چوتھے ستون کو اسی انداز میں منظم حملوں کا سامنا ہے۔
بنگلہ دیش کو نوے کے عشرے کے آخر تک کئی فوجی آمریتوں کا سامنا رہا۔ پھر جمہوری تبدیلیوں کا سفر شروع ہوا تو ایک ایسے نئے دور کا آغاز ہوا جس میں اقتصادی ترقی اور انسانی حقوق کا تحفظ ممکن ہوتے نظر آنے لگے۔ لیکن ڈاکٹر کمال حسین جیسے کئی ماہرین کو بڑی شکایت ہے۔ کمال حسین ایک معروف ماہر قانون ہیں جو ماضی میں ملکی وزیر خارجہ اور وزیر قانون بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے نیوز ایجنسی آئی پی ایس کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ بنگلہ دیش ایک ایسا ملک ہے جہاں ابھی بھی ’قانون کی حکمرانی کی کمی‘ ہے۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم ایک سرکردہ بنگلہ دیشی تنظیم ‘اودھیکار‘ بھی ہے۔ اس تنظیم اور کئی دیگر اداروں کے مطابق بنگلہ دیش میں 1992 سےآج تک 21 صحافیوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے تین صرف اسی سال ہلاک کیے گئے۔ اس سال کے پہلے نصف حصے کے دوران میڈیا کے لیے کام کرنے والے 120 افراد پر شدید حملے کیے گئے۔ اس کے علاوہ 24 صحافیوں کو ان کی طرف سے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران دھمکیاں دی گئیں۔
بنگلہ دیشی صحافیوں کے پاس اپنے لیے انصاف اور آزادی کے سلسلے میں خوشیاں منانے کے لیے کبھی بھی زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ اس لیے گزشتہ مہینے سنائے جانے والے ایک عدالتی فیصلے کی گونج ابھی تک پورے ملک کے میڈیا دفاتر میں سننے میں آتی ہے۔ یہ فیصلہ ڈھاکا کے ایک بنگالی اخبار کے فرید پور میں مقیم ایک نامہ نگار گوتم داس کے 2005ء میں کیے جانے والے قتل کے مقدمے میں سنایا گیا تھا۔ اس مقدمے میں ایک خصوصی عدالت نے قتل کے ذمہ دار دس ملزمان میں سے آٹھ کو عمر قید کی سزائیں سنا دی تھیں۔
بنگلہ دیش فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر اقبال سبحان چوہدری نے آئی پی ایس کو بتایا، ’’ہم چاہتے ہیں کہ صحافت اور صحافیوں پر حملوں سے متعلق التوا میں پڑے تمام مقدمات کی سماعت سمری عدالتوں میں کی جائے۔ جب فیصلے بلاتاخیر سنائے جائیں گے تو ملزمان کی ایسے جرائم کے دوبارہ ارتکاب کی ہمت نہیں ہو گی۔‘‘
بنگلہ دیش میں صحافیوں کے قتل کے دیگر بہت سے واقعات سمیت ابھی تک ایک دوہرے قتل کا معاملہ بھی حل نہیں ہو سکا ہے۔ یہ غلام سرور نامی صحافی اور اس کی اہلیہ رونی کے فروری 2012 میں قتل کا واقعہ ہے، جنہیں ڈھاکا میں آدھی رات کے وقت ان کے گھر پر ہی چھریوں کے وار کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔
صحافیوں کے تحفظ کی بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق بنگلہ دیش میں میڈیا اور میڈیا کارکنوں کو صرف جرائم پیشہ افراد اور بدعنوان شخصیات کی طرف سے ہی انتقامی حملوں کا نشانہ نہیں بننا پڑتا، ایسے حملے کرانے والوں میں سیاسی جماعتیں بھی شامل ہوتی ہیں جو یہ چاہتی ہیں کہ میڈیا میں ان کے بارے میں رپورٹنگ منفی نہیں بلکہ ان کی خواہشات کے مطابق ہو۔