1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
انسانی حقوقبنگلہ دیش

بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش

16 نومبر 2025

ڈھاکہ نے حسینہ کی سابق حکومت کی طرف سے کی جانے والی زیادتیوں کی تحقیقات کے لیے اقدامات کیے ہیں، تاہم انسانی حقوق کے گروپوں نے جاری سیاسی تشدد اور ماورائے عدالت جیسے قتل کے حالیہ واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

بنگلہ دیش کی سکیورٹی فورسز
بنگلہ دیش کی سکیورٹی فورسز بشمول پولیس اور فوج کو ہونے والی بہت سی ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے، تاہم تفتیش میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے تصویر: Munir Uz Zaman/AFP

بنگلہ دیش اسی وقت سے سیاسی بحران کا شکار ہے جب سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کو اگست 2024 میں اپنی مطلق العنان حکمرانی کے خلاف طلبہ کی قیادت میں ایک بڑے پیمانے پر بغاوت کے بعد معزول کر دیا گیا تھا۔

اپنے 15 سالوں کے اقتدار کے دوران، حسینہ پر بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا، جس میں ان کے سیاسی مخالفین کی بڑے پیمانے پر حراست اور ماورائے عدالت قتل بھی شامل ہیں۔

ان کی معزولی کے بعد، نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس کی قیادت میں عبوری حکومت نے بڑی اصلاحات کا وعدہ کیا، جس کا مقصد 170 ملین آبادی والے جنوبی ایشیائی ملک میں حکمرانی کو بہتر بنانا ہے۔

حکام نے حسینہ انتظامیہ کی جانب سے حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔

انہوں نے چوہدری عبداللہ المامون کو بھی گرفتار کیا ہے، جو حسینہ کے آخری برسوں میں پولیس سربراہ رہے تھے۔ وہ اب ایک کیس میں گواہ بن گئے ہیں، جس میں حسینہ اور ان کے کئی وزراء پر بڑے پیمانے پر احتجاج کے دوران مہلک کریک ڈاؤن کا حکم دینے کا الزام لگایا گیا ہے۔

اگرچہ ان قانونی کارروائیوں کا انصاف اور احتساب کی جانب ایک قدم کے طور پر خیرمقدم کیا گیا ہے، لیکن حقوق کے گروپوں کی جانب سے جاری نئی رپورٹس نے بدسلوکی سے متعلق تازہ تشویش کو جنم دیا ہے۔

جبری گمشدگیوں سے متعلق انکوائری کمیشن کے ایک رکن نور خان  نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ہم نے پچھلی حکومت کے دوران ماورائے عدالت قتل کے خلاف مؤقف اختیار کیا تھا اور انصاف کا مطالبہ کیا۔ لیکن صورت حال اب بھی جوں کی توں ہے۔ یہ جاری نہیں رہ سکتا۔"

بنگلہ دیش میں حقوق کی صورتحال کے بارے میں کیا معلوم ہے؟

گزشتہ ماہ کے آخر میں، ڈھاکہ میں قائم حقوق کی ایک تنظیم 'اودھیکار‘ نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا کہ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے سیاسی جماعتوں کی جانب سے تشدد میں کم از کم 281 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

مزید برآں ماورائے عدالت قتل کے 40 متاثرین ہیں اور 153 افراد کو ہجومی تشدد میں قتل کیا گیا۔

بنگلہ دیش کی سکیورٹی فورسز بشمول پولیس اور فوج کو ان میں سے کئی اموات کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

ایک این جی او، منابدھیکر شونگس کرتی فاؤنڈیشن (ایم ایس ایف) نے اپنی اکتوبر کی رپورٹ میں بھی خبردار کیا تھا کہ نامعلوم لاشوں اور حراست میں ہونے والی اموات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ماورائے عدالت قتل کے 40 متاثرین ہیں اور 153 افراد کو ہجومی تشدد میں قتل کیا گیا ہے تصویر: Kamol Das

گروپ نے بتایا کہ صرف اکتوبر میں ملک بھر میں 66 نامعلوم لاشیں برآمد کی گئیں اور اسی عرصے کے دوران 13 حراستی اموات کی اطلاع بھی ملی ہے۔

ایم ایس ایف نے کہا کہ یہ واقعات "عوامی زندگی میں بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کی عکاسی کرتے ہیں۔ ساتھ ہی، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ان لاشوں کی شناخت میں ناکامی نے ان کے کردار پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔"

سرکاری اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ اگست 2025 تک ہر ماہ دریاؤں سے اوسطاً 43 لاشیں برآمد ہوئیں، جو پچھلے سال 36 تھیں۔

یونس پر کارروائی کے لیے دباؤ

نور خان نے کہا کہ اموات کی بڑھتی ہوئی تعداد کی تحقیقات کے لیے پولیس کافی کام نہیں کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا، "یہ یقینی نہیں ہے کہ یہ سب قتل تھے۔ لیکن ان میں سے کچھ ماورائے عدالت قتل ہو بھی سکتے ہیں۔"

خان نے مزید کہا، "اب تو ہجوم بھی بہت سے معاملات میں ماورائے عدالت قتل کے ذمہ دار ہیں۔"

اکتوبر میں ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) اور بین الاقوامی ادارے پریس واچ ڈاگ، کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس سمیت چھ بین الاقوامی گروپوں نے عبوری رہنما یونس کو ایک خط بھیجا، جس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے سخت کارروائی پر زور دیا گیا ہے۔

خط میں کہا گیا ہے،"ہمیں اس بات پر گہری تشویش ہے کہ سکیورٹی کے شعبے میں بڑی حد تک اصلاح نہیں کی گئی ہے اور سکیورٹی فورسز کے ارکان احتساب اور اصلاحات کی کوششوں کے ساتھ مکمل تعاون نہیں کر رہے ہیں۔

ایچ آر ڈبلیو کی ڈپٹی ایشیا ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومت کو "سول سوسائٹی، مذہبی اور سیاسی جماعتوں" کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ بنگلہ دیشی لوگ "نظام انصاف پر اعتماد" کو یقینی بنائیں اور مشتعل مظاہروں اور ہجومی تشدد میں ملوث ہونا بند کریں۔

نوجوان سیاست دان مردہ پائے گئے

اس سال جنوری میں، سکیورٹی فورسز نے بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے یوتھ ونگ کے رہنما توحید الاسلام کو بھارتی سرحد کے قریب کملا شہر سے اٹھایا گیا۔

وہ اگلے دن دریائے گمتی کے قریب بے ہوش ملے اور پھر جلد ہی ہسپتال میں انہیں مردہ قرار دے دیا گیا۔

ڈی ڈبلیو نے مبینہ ماورائے عدالت قتل کے بارے میں بنگلہ دیش کے انٹر سروسز پبلک ریلیشنز اور مسلح افواج کے پبلسٹی ڈیپارٹمنٹ اور پولیس سے رابطہ کیا، لیکن انہوں نے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیاتصویر: Fatima Tuj Johora/REUTERS

اسلام کی موت نے ملک بھر میں غم و غصے اور احتجاج کو جنم دیا۔ حکومت نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مقامی آرمی کیمپ کمانڈر کو واپس بلا لیا اور اسلام کی موت کی تحقیقات شروع کر دیں۔

لیکن متاثرہ خاندان ابھی تک انصاف کا منتظر ہے۔

ان کے بھائی ابوالکلام آزاد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ ہمیں مقدمہ درج کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ پولیس نے ایک بیان لکھا، اور ہم نے اس پر دستخط کیے، ہماری بات نہیں سنی گئی۔ ہمیں کسی پر الزام لگانے کی بھی اجازت نہیں تھی۔"

آزاد نے یہ بھی کہا کہ انہیں دھمکیاں ملی ہیں اور خاموش رہنے کی تنبیہ کی گئی ہے۔

'یہ بہت افسوسناک ہے'

ڈی ڈبلیو نے مبینہ ماورائے عدالت قتل کے بارے میں بنگلہ دیش کے انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر)، مسلح افواج کے پبلسٹی ڈیپارٹمنٹ اور پولیس سے رابطہ کیا، لیکن انہوں نے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

چار نومبر کو، داخلہ امور کے مشیر جہانگیر عالم چودھری نے صحافیوں کو بتایا، "جو بھی قتل میں ملوث ہے، چاہے وہ سکیورٹی فورسز سے ہو یا کسی دوسرے گروپ سے، قانون کے تحت لایا جائے گا اور اس کا احتساب کیا جائے گا۔"

نور خان نے کہا کہ عبوری حکومت کے بیانات خالی الفاظ کی طرح لگتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "یہ بالکل ایسے ہی لگتا ہے جیسے پچھلے وزرائے داخلہ کے بیانات ہوں۔ یہ بہت افسوسناک ہے۔ ابھی تک کسی کا احتساب نہیں ہوا، اور نہ ہی کوئی تحقیقاتی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو حالات مزید خراب ہوں گے۔"

آزادی صحافت پر گہری تشویش

بنگلہ دیش میں پریس کی آزادی شیخ حسینہ کے دور میں تیزی سے خراب ہوئی تھی، جو 1996 اور 2001 کے درمیان اور پھر 2009 اور 2024 کے درمیان بھی وزیر اعظم رہیں۔

رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) کی طرف سے شائع کردہ سالانہ درجہ بندی میں، ملک 2009 میں 121 ویں نمبر سے 2024 میں 165 ویں نمبر پر آ گیا۔ اگرچہ اس سال صورتحال میں بہتر ہوئی ہے اور بنگلہ دیش اب دنیا میں 149 ویں نمبر پر ہے، تاہم یہ اب بھی "انتہائی سنجیدہ" زمرے میں موجود ہے، جو میڈیا کی کمزوری اور زمینی منظر نامے کو ظاہر کرتا ہے۔

چھ نومبر کو آزادی صحافت کے ایک پروگرام میں، یونس کے پریس سکریٹری، شفیق العالم نے کہا، "بہت سے (صحافی) کہتے ہیں کہ وہ ہجوم سے خوفزدہ ہیں۔ مجھے یہ خوف کہیں نظر نہیں آتا۔ جو کوئی بھی ہجوم سے ڈرتا ہے اس نے اس وقت (حسینہ کی حکومت کے) ساتھی کے طور پر کام کیا ہو گا۔"

لیکن حقوق کے گروپ اس سے متفق نہیں ہیں۔

سی پی جے کے ایشیا پیسیفک ڈائریکٹر بہ لیہ یی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کے تحت آزادی صحافت ہمارے لیے ایک گہری تشویش ہے۔" انہوں نے کہا کہ کچھ اصلاحات متعارف کرائی گئی ہیں، تاہم "یہ اصلاحات کافی حد تک آگے نہیں بڑھیں۔"

چیف ایڈوائزر یونس کے دفتر نے اس مضمون پر تبصرہ کرنے کی ڈی ڈبلیو کی درخواست کو مسترد کر دیا۔

دریں اثنا، نئی انتظامیہ نے انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم کی ہے، جو اصل میں 2009 میں منظور کیا گیا تھا - اور اسے حسینہ کی عوامی لیگ پر پابندی لگانے کے لیے استعمال کیا۔ اس ایکٹ کے تحت متعدد صحافیوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

اگست میں، صحافی منظورعالم پنا اور دیگر 15 افراد کو پاکستان کے خلاف ملک کی 1971 کی آزادی کی جنگ پر گول میز کانفرنس میں شرکت کرنے کے بعد انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔

ص ز/ ج ا (انوپم دیب کننجنا)

بنگلہ دیش کا انسداد دہشت گردی کا ایک یونٹ ہی ’دہشت گردی میں ملوث‘

03:49

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں