بنگلہ دیش میں ’جماعت المجاہدین بنگلہ دیش‘ کے ساتھ روابط کے شبے میں تین مشتبہ جنگجو خواتین کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں ڈھاکا کے کیفے پر ہونے والے ایک خونریز حملے کا الزام بھی اسی گروہ پر عائد کیا جاتا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بنگلہ دیشی حکام کے حوالے سے دو جولائی بروز اتوار بتایا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے ایک تازہ کارروائی میں تین مشتبہ خواتین کو حراست میں لے لیا ہے۔ ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ ان خواتین کا تعلق کالعدم ’جماعت المجاہدین بنگلہ دیش‘ سے ہے، جس پر ملک میں ہونے والے متعدد حملوں کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔
اسی انتہا پسند گروہ کو سن دو ہزار سولہ میں ڈھاکا کے اس کیفے پر حملے میں بھی ملوث قرار دیا جاتا ہے، جس میں بائیس افراد مارے گئے تھے۔ ان ہلاک شدگان میں زیادہ تر غیر ملکی تھے اور کہا جاتا ہے کہ اس کیفے کو نشانہ بھی اسی لیے بنایا گیا تھا کیونکہ وہ غیر ملکیوں میں مقبول تھا۔ اس خونریز کارروائی کے بعد بنگلہ دیش کی حکومت نے ’جہادی عناصر‘ کے خلاف کریک ڈاؤن میں تیزی پیدا کر دی تھی۔
ڈھاکا پولیس کے اعلیٰ اہلکار نور حسین نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا کہ اسی کریک ڈاؤن کے سلسلے میں ہفتے کے شب دارالحکومت ڈھاکا سے دو سو اٹھائیس کلومیٹر دور واقع کوشتیا ضلع میں ایک چھاپہ مار کارروائی کی گئی، جس دوران تین خواتین کو گرفتار کر لیا گیا۔
نور حسین کے مطابق ایک خاتون نے خود کش جیکٹ پہن رکھی تھی اور جب اسے کہا گیا کہ وہ خود کو پولیس کے حوالے کر دے تو اس نے دھماکا کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکی، ’’ہم نے اسے نقصان پہنچائے بغیر ہی گرفتار کر لیا۔ بعد میں اس نے اعتراف کیا کہ وہ دھماکا نہیں کر سکی۔ اگر دھماکا ہوتا تو بڑا جانی نقصان ہو سکتا تھا۔‘‘
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Souleiman
7 تصاویر1 | 7
پولیس نے بتایا ہے کہ گرفتار کی جانے والی ان خواتین میں وہ تیس سالہ خاتون بھی شامل ہے، جو ’جماعت المجاہدین بنگلہ دیش‘ کے موجودہ چیف ایوب باچو کی اہلیہ ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ مفرور ایوب اس مقام پر اکثر آتا رہتا تھا۔ نور حسین کے بقول ان خواتین کو گرفتار کرنے کے بعد ان کے گھر سے دس کلو گن پاؤڈر، دو خود کش جیکٹیں اور ایک پستول بھی برآمد کر لیا گیا ہے۔ ساتھ ہی وہاں سے برآمد ہونے والے دو بچوں کو محفوظ مقام پر پہنچا دیا گیا ہے۔
بنگلہ دیش میں حالیہ برسوں کے دوران انتہا پسندوں کی پرتشدد کاروائیوں میں تیزی نوٹ کی جا رہی ہے۔ اس دوران درجنوں غیر ملکی، بلاگرز، سیکولر کارکنوں اور اقلیتی کمیونٹی کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ ان میں سے متعدد کارروائیوں کی ذمہ داری داعش یا القاعدہ کے مقامی گروہ قبول کر چکے ہیں لیکن وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں غیر ملکی جنگجوؤں کی موجودگی نہیں ہے بلکہ اس شورش کے ذمہ دار مقامی جنگجو گروہ ہیں۔ تاہم ڈھاکا کیفے حملے کے بعد سکیورٹی اہلکار تقریبا 70 مشتبہ انتہا پسندوں کو ہلاک کر چکے ہیں جبکہ درجنوں مشتبہ افراد کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔