1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستبنگلہ دیش

بنگلہ دیش میں جاری احتجاجی مظاہرے اور نئی ابھرتی قیادت

1 اگست 2024

کوٹہ سسٹم کے خلاف مظاہروں کے دوران بنگلہ دیش شدید بد امنی سے دوچار رہا۔ حالیہ تحریک نے نہ صرف وزیراعظم شیخ حسینہ کی حکومت کو جنجھوڑ کر رکھ دیا ہے بلکہ ملک میں نئی اور نوجوان قیادت ابھرنے کے امکانات روشن کر دیے ہیں۔

منگل کو حالیہ مظاہروں میں ہلاک ہونے والے 200 سے زائد افراد کی یاد میں یومِ سوگ منایا گیا
منگل کو حالیہ مظاہروں میں ہلاک ہونے والے 200 سے زائد افراد کی یاد میں یومِ سوگ منایا گیاتصویر: DW

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق  بنگلہ دیش میں جاری پر تشدد مظاہروں میں ہلاکتوں کی تعداد 150 سے تجاوز کر چکی ہے۔ تاہم بنگلہ دیشی میڈیا کے مطابق کم از کم 210 افراد، جن میں زیادہ تر نوجوان تھے، اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہیں۔

کوٹہ سسٹم کے حوالے سے عدالتی فیصلے اور احتجاجی مظاہرے ختم ہونے کے بعد کچھ پابندیوں میں اب نرمی کر دی گئی ہے لیکن سوشل میڈیا پلیٹ فارم اور تعلیمی ادارے تاحال بند ہیں۔

ڈھاکہ، رام پورہ کے علاقے میں عوامی لیگ کے حامیوں اور پولیس کا حکومت مخالف مظاہرین سے تصادمتصویر: Mohammad Ponir Hossain/REUTERS

حکومت پر عدم اعتماد میں اضافہ

ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے رہنما بیرسٹر راہول قدوس کازل کا کہنا ہے کہ مظاہروں نے ملک میں 16 سال سے بر سر اقتدار جماعت کے خلاف عوام میں پائے جانے والے شکوک و شبہات کو ہوا دی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کازل کا کہنا تھا کہ اب حکومت کو اس خیال کو ترک کرنا ہوگا کہ ان کے پاس اگلے پانچ سالوں کے لیے اپنی من مانی کرنے کا لائسنس موجود ہے۔

بنگلہ دیش: حالات پرسکون لیکن کشیدہ، اب تک بارہ سو گرفتاریاں

اب حکومت کو اس خیال کو ترک کرنا ہوگا کہ ان کے پاس اگلے پانچ سالوں کے لیے اپنی من مانی کرنے کا لائسنس موجود ہےتصویر: Mohammad Ponir Hossain/REUTERS

تحریک کے حوالے سے عوامی لیگ کا نقطہ نظر

مظاہرین کے خلاف ریاستی رد عمل سخت رہا۔ صرف دارالحکومت ڈھاکہ میں 200000 سے زائد افراد کو احتجاج کے دوران ہنگامہ آرائی اور تشدد کے الزام میں کم از کم 200 مقدمات میں نامزد کیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق 12 دنوں کے دوران ہزاروں افراد گرفتار کیے گئے، جن میں کم از کم 253 طلباء بھی شامل ہیں۔

بنگلہ دیش میں حکومت مخالف مظاہرے، اپوزیشن لیڈر گرفتار

عوامی لیگ کے جوائنٹ جنرل سیکرٹری اے ایف ایم بہاؤالدین نسیم نے حکومت کی جانب سے معاملات میں خرابی کا اعتراف کرتے ہوئے قیادت میں خلا کو تسلیم کیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ مستقبل کی کسی بھی پالیسی کا تعین حکمران جماعت میں بات چیت سے کیا جائے گا۔

12 دنوں کے دوران ہزاروں افراد گرفتار کیے گئے، جن میں کم از کم 253 طلباء بھی شامل ہیںتصویر: MUNIR UZ ZAMAN/AFP

'نام نہاد جمہوریت قابل قبول نہیں‘

تاہم ابھی حالات کا معمول پر آنا شاید آسان نہ ہو۔ بنگلہ دیشی ماہر اور امریکہ کی الینوائے یونیورسٹی کے پروفیسر علی ریاض کا کہنا ہے کہ حکمران جماعت پر مظاہروں کے اثرات پہلے ہی واضح ہوچکے ہیں۔

کیا شیخ حسینہ جمہوریت کی مخالفت پر اُتر آئی ہیں؟

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’'حکومت نے کچھ حد تک مشکوک انتخابات کے ذریعے جمہوریت کا ایک جعلی تاثر بنانے کی کوشش کی لیکن وہ دور اب ختم ہوگیا ہے۔ یہ حکومت، جو پہلے ہی کوئی اخلاقی جواز نہیں رکھتی تھی، اس کے پاس اقتدار بچانے کے لیے اب سوائے طاقت کے استعمال کے دوسرا کوئی چارہ نہیں بچا۔‘'

گرفتاری کے بعد پولیس وین مظاہرین کو عدالت لے جا رہی ہےتصویر: Abu Sufian Jewel/AFP

نئی سیاسی قیادت کا ظہور

ماہر سیاسیات تسنیم صدیقی کے مطابق اس تحریک نے کسی مرکزی قیادت کے بغیر لوگوں کو مؤثر طریقے سے متحرک کرنے کی بے مثال صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایک ہی جماعت کے مسلسل 16 سال سے اقتدار میں رہنے کی وجہ سے ملک کا نظام ایک شخصی آمریت میں تبدیل ہو چکا ہے، جہاں ہر مسئلے کے حل کے لیے وزیر اعظم سے ہی رجوع کیا جاتا ہے۔

اس تحریک نے کسی مرکزی قیادت کے بغیر لوگوں کو مؤثر طریقے سے متحرک کرنے کی بے مثال صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہےتصویر: Mahmud Hossain Opu/AP/picture alliance

صدیقی کے مطابق تحریک اس موجودہ سیاسی کلچر کو چیلنج کر رہی ہی۔ مزید برآں، عوامی لیگ اور بی این پی کی سیاسی رقابت نے نہ ہی نوجوان نسل کو کوئی فائدہ پہنچایا اور نہ ہی سیاسی منظر نامے کو بہتر بنایا۔

گرفتاریاں اور ہلاکتیں لیکن بنگلہ دیشی اسٹوڈنٹس جیت گئے!

وہ کہتی ہیں، ''ملک کے نوجوان اس قسم کی سیاست کو پسند نہیں کرتے۔ اگر یہ دونوں جماعتیں اس بات کو نہیں سمجھیں گی، تو وہ حکمرانی نہیں کرسکیں گی۔‘‘ ان کا خیال ہے کہ اس تحریک کے نتیجے میں کوئی تیسری بڑی جماعت ابھر کر آسکتی ہے۔

بنگلہ دیش: سپریم کورٹ نے کوٹہ سسٹم بحالی کا عدالتی حکم مسترد کر دیا

علی ریاض کہتے ہیں کہ حکومت نے جبر کی سیاست کے ذریعے تمام حدیں پار کردی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کی طاقت کے ذریعے اس تحریک کو دبانے میں کچھ حد تک کامیابی کے باوجود یہ تحریک ختم نہیں ہوگی۔

انوپم دیب کنونجنا  (ح ف/ ر ب)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں