1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش میں خواجہ سراؤں کے لئے وراثت کے حقوق

17 نومبر 2020

جلد ہی خواجہ سرا اپنے اہل خانہ کی جائیداد کے وارث بن سکیں گے یا جائیداد میں حصہ حاصل کر سکیں گے۔

Symbolbild I Sexarbeit in Indien
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Solanki

بنگلہ دیش کے وزیر قانون نے اِتوار کے روز اعلان کیا کہ جلد ہی خواجہ سرا اپنے اہل خانہ کی جائیداد کے وارث بن سکیں گے یا جائیداد میں حصہ حاصل کر سکیں گے۔ یہ قدامت پسند مسلم اکثریتی ملک میں اس اقلیتی طبقے کو زیادہ سے زیادہ حقوق دلانے کی تازہ ترین کوششوں میں سے ایک ہے۔

168 ملین افراد پر مشتمل ملک بنگلہ دیش سرکاری طور پر سیکولر ہے لیکن جائیداد سے متعلق قوانين اب بھی مذہبی قوانین کی پیروی کرتے ہيں جن کے تحت والدین کی وفات کے بعد خواجہ سراؤں کو جائیداد کی وراثت سے روک دیا جاتا ہے یا جائیداد میں ان کو کوئی حصہ نہیں دیا جاتا۔

 

وزیر اعظم شیخ حسینہ نے اس ہفتے کابینہ کے اجلاس میں بتایا تھا کہ خواجہ سراؤں کے ليے وراثت کے نئے قوانین تیار کيے جا رہے ہیں۔ وزیر قانون انیس الحق نے نيوز ايجنسی اے ایف پی کو بتایا، ’’ہم اسلامی شريعہ قانون اور اپنے آئین کے مطابق ایسی قانون سازی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کی مدد سے خواجہ سراؤں کے ليے جائیداد کے حقوق کو یقینی بنایا جاسکے۔‘‘
پارلیمنٹ سے اس بِل کی منظوری ابھی باقی ہے لیکن امکان ہے کہ قانون ساز اسمبلی اسے پاس کر دے گی۔
بنگلہ دیش نے سن 2013 کے بعد سے خواجہ سراؤں کو ایک علیحدہ صنف کے طور پر شناخت کی اجازت دے دی تھی۔ ملکی سطح پر خواجہ سراؤں کی تعداد ڈیڑھ ملین کے قریب ہے۔ گزشتہ برس انہیں تیسری صِنف کے طور پر ووٹ ڈالنے کے ليے اندراج کی اجازت بھی دے دی گئی تھی۔ اس ماہ کے آغاز میں بنگلہ ديش ميں مسلم خواجہ سراؤں کے ليے اولين اسلامی مدرسہ بھی کھولا گيا۔

لیکن ایل جی بی ٹی کیو برادری کو اب بھی وسیع پیمانے پر امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ نوآبادیاتی دور کا ایک ایسا قانون اب بھی موجود ہے، جس میں ہم جنس پرستی پر قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ گو کہ اس کا نفاذ بہت ہی کم ہوتا ہے.

انسانی حقوق کے ليے سرگرم کارکنوں نے ان اقدامات کا خیر مقدم کیا ہے۔ تاہم انہیں اس بارے میں شبہ ہے کہ آیا اس قانون پر عملدرآمد ہوگا کیونکہ بہت سے خاندان اب بھی اپنی خواجہ سرا اولادوں کو سماجی دباؤ کی وہ سے قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔

تصویر: DW/A. Bacha

ٹرانسجنڈر رائٹس گروپ سدا کالو کی سربراہ انانیا بانیک نے کہا کہ ایک کارکن کی حیثیت سے انہيں خوشی ہے کہ اس مسئلے پر توجہ دی جا رہی ہے لیکن یہ مسئلہ صرف قانون سازی سے حل نہیں ہوگا بلکہ اس کے ليے پورے معاشرے میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ بانیک نے کہا کہ وہ 16 سال کی عمر میں خواجہ سِرا بن کر سامنے آئیں تھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ لوگوں نے ان کے خاندان پر بہت دباؤ ڈالا جس کے نتیجے میں انہيں اپنا گھر چھوڑنا پڑ گيا تھا۔ وہ تنہا نہیں، معاشرے میں لاکھوں افراد یا خواجہ سرا اب بھی موجود ہیں جنہیں اپنے گھر اور خاندان چھوڑنے پڑتے ہیں۔ بانیک نے کہا وہ اپنی شناخت مونث کے طور پر کراتنے کو ترجیح دیتی ہيں۔ اکثر خواجہ سرا اپنے خاندان کے افراد، رشتے داروں یا عزیز و اقارب سے دور ہو جاتے ہیں اور اگر وہ اپنی وراثت کا دعویٰ کرنے گھر واپس جائیں، تو انہیں تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انسانی حقوق کے ليے سرگرم کارکنوں کو سخت گیر مذہبی نظريات کے حامل حلقوں سے سخت ردِعمل کا بھی خدشہ رہتا ہے۔ سن 2015 ء میں انتہا پسندوں نے ایک معروف ہم جنس پرست کارکن اور ایل جی بی ٹی میگزین کے ایڈیٹر کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

م ش / ع ح (نيوز ايجنسياں)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں