بنگلہ دیش میں ساحل پر عید، سینکڑوں روہنگیا مہاجرین گرفتار
5 مئی 2022
بنگلہ دیشی پولیس نے کم از کم ساڑھے چار سو ایسے روہنگیا مہاجرین کو گرفتار کر لیا، جو ساحل پر عیدالفطر کی خوشیاں منا رہے تھے۔ اس جنوبی ایشیائی ملک میں لاکھوں روہنگیا مہاجرین کو اپنے کیمپوں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں۔
اشتہار
بنگلہ دیش میں کوکس بازار سے جمعرات پانچ مئی کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق حکام نے بتایا کہ گرفتار کیے گئے روہنگیا نسل کے مسلمان مہاجرین کی تعداد کم از کم بھی 450 بنتی ہے۔ جنوبی ایشیائی ملک میانمار میں 2017ء میں ملکی فوج کی طرف سے روہنگیا نسلی اقلیت کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیے جانے کے بعد تقریباﹰ ایک ملین روہنگیا باشندے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔ روہنگیا ایک بےوطن برادری ہے، جس کے افراد کو میانمار میں بنگالی مہاجرین سمجھا جاتا ہے۔
مہاجر کیمپوں سے باہر نکلنا ممنوع
میانمار میں روہنگیا کے خلاف فوجی کریک ڈاؤن کو اسی سال مارچ میں امریکہ نے باقاعدہ طور پر نسل کشی بھی قرار دے دیا تھا۔ اس کریک ڈاؤن کے دوران اپنی جانیں بچانے کے لیے جو روہنگیا باشندے بنگلہ دیش میں پناہ گزین ہوئے تھے، ان کی موجودہ تعداد تقریباﹰ نو لاکھ بیس ہزار بنتی ہے۔ وہ گزشتہ کئی برسوں سے ایسے کیمپوں میں مقیم ہیں، جن کے ارد گرد خار دار تاریں لگی ہوئی ہیں اور جن سے باہر نکلنے کی ان کو اجازت نہیں۔
بھارتی دارالحکومت دہلی میں مقیم روہنگیا پناہ گزينوں کا کہنا ہے کہ اتوار کی شام بعض افراد نے کیمپ نہ خالی کرنے پر جان سے مارنے کی دھمکی دی۔ پھر رات کو اچانک آگ لگنے سے ان کا کیمپ جل کر خاک ہو گيا۔
تصویر: Badar Ali
چھت سے پھر محروم
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے جنوب مشرقی علاقے مدن پور کھادر میں روہنگیاہ پناہ گزینوں کا یہ کیمپ اتوار کی شب آگ لگنے سے جل کر خاک ہو گیا۔ یہاں کی جھونپڑیوں میں 53 روہنگيا خاندان آباد تھے اور آگ لگنے کی وجہ سے ڈھائی سے سو زیادہ پناہ گزین اب بغیر چھت کے ہیں۔
تصویر: Badar Ali
سب برباد ہو گیا
روہنگیا پناہ گزین کے مطابق اب متاثرہ افراد عارضی طور پر ذکوۃ فاؤنڈیشن کے ایک پلاٹ میں مقیم ہیں،’’اب ہمارے پاس نہ تو کچھ کھانے کو بچا ہے نہ ہی کپڑے اور پیسے ہیں۔ ہم اب دوسروں کی امداد کے منتظر رہتے ہیں۔‘‘
تصویر: Badar Ali
سرکاری اراضی
جس مقام پر یہ روہنگیا پناہ گزین آباد تھے وہ دلی کا مضافاتی علاقہ ہے اور وہ سرکاری جگہ بتائی جا رہی ہے۔ بعض مقامی سیاسی شخصیات اور سماجی کارکنان نے آگ لگنے کے اس واقعے کو سازش قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق اگر یہ سازش نہیں ہے تو پھر دوبارہ انہیں وہاں جھگی بنانے کی اجازت کیوں نہیں دی جا رہی ہے۔
تصویر: Badar Ali
رات کی تاریکی میں آگ
اس کیمپ کے متاثرہ افراد پہلے یہاں سے نصف کلومیٹر کے فاصلے پر مقیم تھے۔ چند برس قبل اس کیمپ میں بھی رات کی خاموشی میں اسی طرح آگ لگی تھی اور سب کچھ جل کر خاک ہو گیا تھا۔ اس کے بعد پناہ گزينوں نے اس مقام پر جھگیاں تعمیر کیں جو اب پھر آگ کی نذر ہو گئی ہیں۔
تصویر: Badar Ali
جان سے مارنے کی دھمکی
روہنگیا پناہ گزین کے مطابق، عشاء کے وقت چند لوگ وہاں آئے اور روہنگیا پناہ گزینوں کو دھمکی دی اور کہا،’’ اگر تم لوگ اس جگہ کو خالی نہیں کرتے تو تمہاری جان کو خطرہ لاحق ہے۔ اس دھمکی کے تقریباً تین گھنٹوں کے بعد اسے جلا دیا گيا۔"
تصویر: Badar Ali
سازش کا الزام
اسی متاثرہ کیمپ کے پاس بسنے والے ایک اور روہنگيا کارکن کا کہنا ہے یہ آگ ایک سازش کا نتیجہ ہے۔ ڈی ڈبلیو سے خاص بات چیت میں انہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ جس نے بھی یہ کیا ہے وہ طاقت ور لوگ ہیں اور اگر ان کے پیچھے اقتدار کی طاقت نہیں ہے تو وہ اس طرح کھلے عام دھمکی کیسے دے سکتے ہیں۔
تصویر: Badar Ali
خوف و ہراس
گزشتہ چند مہینوں کے دوران بھارت کے متعدد علاقوں میں رہنے والے روہنگیا مسلمانوں کو پکڑ کر انہیں حراستی مراکز میں منتقل کرنے کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے، جس سے روہنگیا برادری میں زبردست خوف و ہراس کا ماحول ہے۔
تصویر: Badar Ali
زندگی اجیرن
شناختی دستاویزات نہ ہونے والے بیشتر پناہ گزينوں کو حراستی مراکز یا جیلوں میں رکھا گيا ہے۔ حراست میں لیے جانے والے ایسے یشتر افراد کے چھوٹے چھوٹے بچے اور بیویاں ہیں، جن کی زندگی اب اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔
تصویر: Badar Ali
ہولڈنگ سینٹر
کچھ دن پہلے پولیس نے دہلی اور جموں و کشمیر میں رہنے والے ایسے پناہ گزینوں کو یہ کہہ کر حراست میں لینے کا سلسلہ شروع کیا تھا کہ ان کے پاس مناسب دستاویزات نہیں ہیں۔ جموں میں حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایسے 155 روہنگیا مسلمانوں کو ہولڈنگ سینٹر میں بھیجا ہے، جن کے پاس نہ تو پاسپورٹ ہیں اور نہ ہی یو این ایچ سی آر کی جانب سے جاری کیا جانے والا کوئی شناختی کارڈ۔
تصویر: Badar Ali
آخر روہنگیا کی جھگیاں ہی کیوں؟
روہنگیا پناہ گزین نے ڈی ڈبلیو اردو کو مزید بتایا کہ اس پورے علاقے میں ایسی مزید کئی کچی بستیاں یا جھگیاں ہیں، جن میں بہت سے مقامی لوگ رہتے ہیں،’’تاہم آگ ہمیشہ ہم پناہ گزینوں کی جھگیوں میں ہی لگتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ پناہ گزینوں کو بھگانے کی ایک سازش ہے۔‘‘
تصویر: Badar Ali
چودہ ہزار کے لگ بھگ روہنگیا
حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق جموں اور سانبہ کے علاقے میں تقریباﹰ پونے چودہ ہزار روہنگیا مسلمان اور بنگلہ دیش سے آنے والے افراد رہتے ہیں۔ بھارتی حکومت نے پارلیمان میں ان کے ڈیٹا سے متعلق اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ملک بھر میں ان کی تعداد تقریبا چالیس ہزار ہے۔
تصویر: Badar Ali
11 تصاویر1 | 11
پولیس کے مطابق جن روہنگیا مہاجرین کو گرفتار کیا گیا، وہ کوکس بازار کے ایک ایسے مشہور ساحلی علاقے میں عید منا رہے تھے، جہاں جانے کی ان کو اجازت نہیں تھی۔ ان مسلم مہاجرین کو عیدالفطر کی چھٹیوں کے دوسرے روز کل بدھ چار مئی کو رات گئے مارے گئے چھاپوں کے دوران حراست میں لیا گیا۔
پولیس ترجمان رفیق الاسلام نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''کوکس بازار کا ساحلی علاقہ دنیا کے سب سے بڑے ساحلی علاقوں میں شمار ہوتا ہے، جہاں سے 450 سے زائد روہنگیا مہاجرین کو گرفتار کیا گیا۔ انہیں اپنے کیمپوں سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ گرفتاریاں اس لیے عمل میں آئیں کہ ان روہنگیا باشندوں کی ساحل پر موجودگی خطرے کی بات تھی۔‘‘
اشتہار
جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات
بنگلی دیشی حکام اپنے ملک میں زیادہ تر کوکس بازار کے ضلع میں مقیم ان لاکھوں روہنگیا مہاجرین پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ کئی طرح کے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں اور خاص طور پر ان کی ساحلی علاقے میں موجودگی ان لاکھوں سیاحوں کے لیے خطرناک تھی، جو بڑے قومی یا مذہبی تہواروں کے موقع پر اس ساحلی علاقے کا رخ کرتے ہیں۔
روہنگیا مہاجر بچے، جو اپنے جلتے گھروں کو پیچھے چھوڑ آئے
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے نتیجے میں جو مہاجرین بنگلہ دیش پہنچے اُن میں یونیسف کے اعداد وشمار کے مطابق اٹھاون فیصد بچے ہیں۔ ان بچوں میں سے متعدد اپنے خاندان کے افراد کی ہلاکتوں کے چشم دید گواہ ہیں۔
تصویر: Reuters/C. McNaughton
گھر جل کر راکھ ہو گیا
بارہ سالہ رحمان کو بھی میانمار میں شورش کے سبب اپنا گھر چھوڑ کر بنگلہ دیش جانا پڑا۔ رحمان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنے گھر کو اپنی آنکھوں سے جلتے ہوئے دیکھا۔ اُس کی والدہ اپنی بیماری کے باعث ساتھ نہیں آسکیں اور ہلاک کر دی گئیں۔
تصویر: DW/J. Owens
خنجر سے وار
میانمار میں کینیچی گاؤں کے رہائشی دس سالہ محمد بلال کا کہنا تھا،’’ جس دن فوج آئی انہوں نے میرے گاؤں کو آگ لگا دی اور میری ماں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ میرے والد چل نہیں سکتے تھے، اس لیے ان پر بھی خنجروں سے وار کیے گئے۔ یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
لاوارث بچوں کا کیمپ
محمد کی بہن نور نے بھی یہ قتل و غارت گری دیکھی تھی۔ لیکن اب وہ اپنے بھائی کے ساتھ ایسے بچوں کے لیے مختص مہاجر کیمپ میں مقیم ہے، جو بغیر سرپرست کے ہیں۔ وہ خوش ہے کہ وہ یہاں کھیل سکتی ہے اور اسے کھانا بھی باقاعدگی سے ملتا ہے۔ لیکن نور اپنے والدین اور ملک کو یاد بھی کرتی ہے۔
تصویر: DW/J. Owens
گولیوں کی بوچھاڑ میں
پندرہ سالہ دل آراء اور اس کی بہن روزینہ نے بھی اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا۔ دل آرا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ میں سارا وقت روتی رہی۔ گولیاں ہمارے سروں پر سے گزر رہی تھیں لیکن میں کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹیوں کو نہ بچا سکی
روہنگیا مہاجر سکینہ خاتون کا کہنا ہے کہ جب فائرنگ شروع ہوئی تو انہوں نے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتی تھیں۔ لیکن وہ اپنی دو بیٹیوں، پندرہ سالہ یاسمین اور بیس سالہ جمالیتا کو نہیں بچا سکیں، جو اس وقت پڑوس کے گاؤں میں تھیں۔
تصویر: DW/J. Owens
پہلے بھاگنے کو کہا پھر گولی چلا دی
جدید عالم اُن سینکڑوں روہنگیا بچوں میں سے ایک ہے، جو اپنے والدین کے بغیر میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش آئے ہیں۔ میانمار کے ایک دیہات منڈی پارہ کے رہائشی جدید عالم کا کہنا تھا،’’ جب میانمار کی فوج نے ہمارے گاؤں پر حملہ کیا تو انہوں نے ہمیں گاؤں چھوڑنے کو کہا۔ میں اپنے والدین کے ساتھ بھاگ ہی رہا تھا کہ فوجیوں نے میرے ماں باپ پر گولی چلا دی اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
تصویر: DW/J. Owens
باپ اور بھائیوں کا صدمہ
پندرہ سالہ یاسمین کی کہانی بھی کم درد ناک نہیں۔ اُس نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ برما کی فوج نے میرے باپ اور بھائیوں کو ہلاک کر ڈالا اور فوجیوں کے ایک گروپ نے میرے ساتھ جنسی زیادتی کی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹا نہیں مل رہا
روہنگیا پناہ گزین رحمان علی کئی ہفتوں سے مہاجر کیمپ میں اپنے آٹھ سالہ بیٹے سفاد کو تلاش کر رہا ہے۔ علی کو خدشہ ہے کہ اس کے کمسن بیٹے کو انسانی اسمگلروں نے اغوا کر لیا ہے۔ رحمان علی کا کہنا ہے،’’ نہ میں کھا پی سکتا ہوں نہ ہی سو سکتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ بیٹے کے غم میں میں پاگل ہو جاؤں گا۔‘‘
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گرفتار شدہ روہنگیا مہاجرین میں ایسے نابالغ لڑکے بھی شامل ہیں، جن کی عمریں صرف تیرہ برس ہیں۔ زیر حراست ایک بیس سالہ روہنگیا خاتون نے بتایا کہ وہ پہلی مرتبہ کوکس بازار کے ساحل پر گئی تھی، جہاں پولیس نے اسے اس کے شوہر اور بچوں سمیت گرفتار کر لیا۔
ساحل مہاجر کیمپوں سے چالیس کلومیٹر دور
بنگلہ دیش میں پولیس حالیہ مہینوں میں روہنگیا مہاجرین کے کیمپوں میں بلا اجازت چلائی جانے والی تقریباﹰ تین ہزار دکانیں اور چند مقامی نجی اسکول منہدم بھی کر چکی ہے۔ ملک کے ڈپٹی کمشنر برائے مہاجرین کے مطابق ساحل سے گرفتار کیے گئے روہنگیا باشندوں کو جلد واپس ان کے کیمپوں میں بھیج دیا جائے گا۔
جن ساڑھے چار سو سے زائد مہاجرین کو گرفتار کیا گیا، وہ اپنے کیمپوں سے نکل کر تقریباﹰ 40 کلومیٹر (25 میل) کا سفر طے کر کے کوکس بازار کے مشہور ساحلی علاقے تک پہنچے تھے۔
م م / ش ر (اے ایف پی)
راکھین سے کوکس بازار تک کا سفر، روہنگیا مہاجرین کی کہانیاں
روہنگیا مسلمانوں کا بحران دن بدن شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اب تک قریب تین لاکھ ستر ہزارروہنگیا مسلمان میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔ ڈی ڈبلیو نے روہنگیا اقلیت کے ہجرت کے اس سفر کی تصویری کہانی مرتب کی ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
طویل مسافت
میانمار میں راکھین صوبے سے ہزارہا روہنگیا مہاجرین ایک طویل مسافت طے کر کے بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔ چھوٹے بچوں کو گود میں لاد کر دلدلی راستوں پر پیدل سفر آسان نہیں۔ یہ تصویر بنگلہ دیش میں ٹیکناف کے لمبر بل علاقے کی ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
کیچڑ بھرا راستہ
اس تصویر میں عورتوں اور بچوں کو کیچڑ سے بھرے پیروں کے ساتھ کچے راستے پر چلتے دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
بیمار بھی تو اپنے ہیں
اپنا گھر چھوڑنے کی تکلیف اپنی جگہ لیکن گھر کے بزرگوں اور بیمار افراد کو چھوڑنا ممکن نہیں۔ یہ دو روہنگیا افراد اپنے گھر کی ایک معذور خاتون کو اٹھا کر لے جا رہے ہیں۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
کریک ڈاؤن کے بعد
میانمار کی فوج کے کریک ڈاؤن سے شروع ہونے والے تنازعے میں خواتین اور بچے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ نقل مکانی کرنے والے روہنگیا افراد میں زیادہ تعداد بھی عورتوں اور بچوں ہی کی ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
منظم حملے
پچیس اگست کو میانمار میں روہنگیا جنگجوؤں نے پولیس تھانوں پر منظم حملے کیے تھے، جس کے بعد سکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی شروع کر دی تھی۔ جنگجوؤں اور سیکورٹی فورسز کے مابین شروع ہونے والی ان جھڑپوں کے باعث زیادہ تر نقصان روہنگیا باشندوں کو ہی اٹھانا پڑا ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
کئی سو ہلاکتیں
محتاط اندازوں کے مطابق اس تشدد کے نتیجے میں کم از کم چار سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے اکثریت روہنگیا کی ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
نف دریا
میانمار سے بنگلہ دیش کی سرحد عبور کرنے کے لیے دریا بھی پار کرنا پڑتا ہے۔ درمیان میں ’نف‘ نامی دریا پڑتا ہے، جسے کشتی کے ذریعے عبور کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
الزام مسترد
میانمار کی حکومت ایسے الزامات مسترد کرتی ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے اور انہیں ہلاک یا ملک بدر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
سرحدی راستے
بنگلہ دیش پہنچنے کے لیے میانمار سے روہنگیا مسلمان مختلف سرحدی راستے اپناتے ہیں۔ زیادہ تر ٹیکناف اور نیخن گھڑی کی طرف سے آتے ہیں۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
گھروں کے جلنے کا دھواں
روہنگیا کمیونٹی کے گھروں کے جلنے کا دھواں بنگلہ دیش کے ٹیکناف ریجن سے گزرنے والے دریائے نف کے اس پار سے دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
چھبیس سو مکانات نذر آتش
دو ستمبر کو میانمار کی حکومت کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ شمال مغربی ریاست راکھین میں کئی دہائیوں کے دوران پیش آنے والے ان بدترین واقعات میں 2600 مکانات نذر آتش کیے جا چکے ہیں۔ تاہم حکومت کا الزام تھا کہ گھروں کو آگ لگانے کے ان واقعات میں روہنگیا ہی ملوث ہیں۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
جانور بھی ساتھ
بنگلہ دیش میں نقل مکانی کر کے آنے والے بعض روہنگیا افراد اپنے جانوروں کو ساتھ لانا نہیں بھولے۔ ایسی صورت میں یہ مہاجرین نف دریا کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
کوکس بازار
مہاجرین کی کچھ تعداد اب تک بنگلہ دیش کے کوکس بازار ضلع میں قائم عارضی کیمپوں میں جگہ ملنے سے محروم ہے۔ اس تصویر میں چند مہاجرین کوکس بازار کے قریب ٹیکناف ہائی وے پر کھڑے جگہ ملنے کے منتظر ہیں۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
سڑک کنارے بسیرا
جن لوگوں کو کیمپوں میں جگہ نہیں ملتی وہ سڑک کے کنارے ہی کہیں بسیرا کر لیتے ہیں۔ اس روہنگیا خاتون کو بھی چھوٹے بچوں کے ساتھ کھلے آسمان تلے رات گزارنی پڑ رہی ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
زیادہ بڑے شیلٹر
ٹیکناف کے علاقے میں بنگلہ دیشی حکومت روہنگیا پناہ گزینوں کے لیے زیادہ بڑے شیلٹر بنا رہی ہے تاکہ جگہ کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
دو لاکھ سے زیادہ بچے
میانمار کے روہنگیا مہاجرین میں دو لاکھ سے زیادہ بچے ہیں جو ان پناہ گزینوں کا ساٹھ فیصد ہیں۔
میانمار سے ان مہاجرین کی زیادہ تعداد جنوب مشرقی بنگلہ دیش کے ضلعے کاکس بازار پہنچتی ہے، کیونکہ یہی بنگلہ دیشی ضلع جغرافیائی طور پر میانمار کی ریاست راکھین سے جڑا ہوا ہے، جہاں سے یہ اقلیتی باشندے اپنی جانیں بچا کر فرار ہو رہے ہیں۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
مہاجرین کی کہانیاں
بنگلہ دیش پہنچنے والے ہزارہا مہاجرین نے بتایا ہے کہ راکھین میں سکیورٹی دستے نہ صرف عام روہنگیا باشندوں پر حملوں اور ان کے قتل کے واقعات میں ملوث ہیں بلکہ فوجیوں نے ان کے گھر تک بھی جلا دیے تاکہ عشروں سے راکھین میں مقیم ان باشندوں کو وہاں سے مکمل طور پر نکال دیا جائے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
اقوام متحدہ کا مطالبہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے حال ہی میں میانمار سے مطالبہ کیا ہے کہ راکھین میں حالات کو قابو میں لانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ روہنگیا مسلمانوں کو میانمار میں کئی دہائیوں سے امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ ان کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں ہے اور ینگون حکومت انہیں غیر قانونی تارکین وطن قرار دیتی ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
بیس ہزار مہاجرین روزانہ
رواں ہفتے عالمی ادارہ برائے مہاجرت نے کہا تھا کہ روزانہ کی بنیادوں پر اوسطا بیس ہزار روہنگیا بنگلہ دیش پہنچ رہے ہیں۔ اس ادارے نے عالمی برداری سے ان مہاجرین کو فوری مدد پہنچانے کے لیے 26.1 ملین ڈالر کی رقوم کا بندوبست کرنے کی اپیل بھی کی تھی۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
تین لاکھ ستر ہزار پناہ گزین
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک تین لاکھ ستر ہزار روہنگیا مہاجرین بنگلہ دیش پہنچے ہیں۔ ان افراد کو بنگلہ دیشی علاقے کوکس بازار میں بنائے گئے عارضی کیمپوں میں رکھا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/M.M. Rahman
خوراک کی قلت
عالمی ادارہ مہاجرت کے مطابق بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کی صورتحال انتہائی ابتر ہے۔ انہیں بنیادی ضروریات زندگی کی اشیا بھی دستیاب نہیں اور خوراک کی قلت کا بھی سامنا ہے۔