بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمٰن کا قتل، ابھی تک معمہ ہے
عابد حسین
15 اگست 2017
شیخ مجیب الرحمٰن کو پاکستان کے سابقہ حصے مشرقی پاکستان اور آج کے بنگلہ دیش کا بانی قرار دیا جاتا ہے۔ اِس وقت مقتول سیاسی لیڈر کی بیٹی شیخ حسینہ بنگلہ دیش کی وزیراعظم ہیں۔
اشتہار
بنگلہ دیش کے بانی لیڈر تصور کیے جانے والے شیخ مجیب الرحمٰن کو سن 1975 میں ایک فوجی بغاوت کے نتیجے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ پندرہ اگست کو موجودہ حکمران جماعت نے قومی دن قرار دے رکھا ہے۔ شیخ مچیب الرحمٰن کے قتل اور فوجی بغاوت کے حوالے خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا گیا ہے۔
آج کے دن کی سب سے اہم تقریب ڈھاکا میں قائم بنگلہ بندھو میمورئیل میوزیم میں منعقد کی گئی۔ اس خصوصی تقریب میں بنگلہ دیشی صدر عبدالحمید اور وزیراعظم شیخ حسینہ نے شرکت کی اور مقتول لیڈر کی یاد میں کچھ دیر خاموشی اختیار کی۔ اس موقع پر فوج کے نمائندہ دستوں نے بھی سلامی پیش کی۔
یادگاری میوزیم میں ہونے والی تقریب کے مقام سے کچھ دیر کی مسافت پر ایک انتہا پسند نے اپنی بارودی جیکٹ اُس وقت اڑائی جب پولیس نے اُس کے اپارٹمنٹ پر چھاپہ مارا تھا۔ شیخ مجیب الرحمٰن کی برسی کے موقع پر نکالے جانے والے خصوصی جلوسوں کو بھی انتہا پسند ٹارگٹ کرنے کی کوشش میں تھے لیکن ملکی پولیس نے مخبری کی بنیاد پر ان کی منصوبہ بندی کو ناکام بنا دیا۔
پندرہ اگست سن 1975 کو بنگلہ دیشی فوج کے جونیئر افسران نے ٹینکوں پر سوار ہو کر دارالحکومت میں واقع صدارتی محل پر دھاوا بول دیا اور شیخ مجیب الرحمٰن، اُن کے خاندان کے چند افراد اور ذاتی عملے کو ہلاک کر دیا تھا۔ اُن کی دو بیٹیاں شیخ حسینہ اور شیخ ریحانہ بچ گئیں کیونکہ وہ اُس وقت سابق مغربی جرمنی کے دورے پر تھیں۔
بنگلہ دیشی سیاسی حلقوں کے مطابق یہ فوجی بغاوت شیخ مجیب الرحمٰن کی سیاسی جماعت عوامی لیگ کے ناراض لیڈروں نے جونیئر فوجی افسران کے ساتھ مل کر کی تھی۔ اس میں خوندکر مشتاق احمد کو بھی شامل کیا جاتا ہے، جو مقتول لیڈر کے جانشین بنے تھے۔
ابھی تک اس قتل اور بغاوت کی وجوہات مخفی تصور کی جاتی ہیں۔ اہم جریدے فار ایسٹرن اکنامک ریویو میں ممتاز صحافی لارنس لائف شلز نے اس بغاوت میں امریکی خفیہ اجنسی سی آئی اے کو بھی ملوث قرار دیا تھا۔
سن 2017 میں شیخ مجیب الرحمٰن کی بیٹی شیخ حسینہ وزیراعظم ہیں اور وہ اپنے ملک میں مسلمان انتہا پسندوں کی بیخ کنی کے لیے ایک خصوصی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس مہم کے دوران اب تک ستر سے زائد مشتبہ انتہا پسندوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔
بنگلہ دیشی جمہوریت کے لیے مشکل دور
بنگلہ دیش میں اپوزیشن کے بائیکاٹ کے باوجود اتوار پانچ جنوری کو عام انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔ انتخابات سے پہلے ملک گیر ہنگامے اور ہڑتالیں ایک معمول بن چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Dinodia Photo
سیاسی بد امنی
پانچ جنوری کو بنگلہ دیش میں مجوزہ انتخابات سے ایک سال پہلے سے یہ ملک مسلسل احتجاجی مظاہروں، ہڑتالوں اور تشدد کی لپیٹ میں ہے۔ بڑی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) کے حامیوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان تواتر سے تصادم ہوتا رہا ہے۔ اس جماعت کی قائد نے دسمبر کے اواخر میں انتخابات کو روکنے کے لیے ’جمہوریت کے لیے مارچ‘ کی کال دی تھی۔ مظاہرے جاری ہیں۔
تصویر: MUNIR UZ ZAMAN/AFP/Getty Images
اکثریت انتخابات کے خلاف
ڈھاکہ ٹریبیون کے ایک تازہ سروے کے مطابق ملک کے 77 فیصد شہری انتخابات کے انعقاد کے خلاف ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) کی شرکت کے بغیر یہ انتخابات ناقابل قبول ہوں گے۔ اس جائزے کے مطابق 37 فیصد ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔
تصویر: MUNIR UZ ZAMAN/AFP/Getty Images
کاروبارِ زندگی مفلوج
سڑکوں، ریلوے لائنوں اور آبی راستوں کی ناکہ بندی نے بنگلہ دیش کی معیشت اور عوام پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ڈھاکہ چیمبرز آف کامرس کے مطابق ایک دن کی ناکہ بندی سے ملکی معیشت کو 200 ملین ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ کسانوں کو اپنی مصنوعات منڈیوں تک پہنچانے اور ٹیکسٹائل ملوں کو اپنی مصنوعات بروقت روانہ کرنے میں مشکلات درپیش ہیں۔
تصویر: DW/Mustafiz Mamun
آزادانہ اور منصفانہ انتخابات؟
عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والی وزیر اعظم شیخ حسینہ (تصویر میں) اور اپوزیشن کے درمیان انتخابی عمل میں حال ہی میں متعارف کروائی جانے والی اصلاحات بھی وجہِ نزاع بنی ہوئی ہیں۔ حسینہ کے دورِ حکومت میں آئین میں ترمیم کرتے ہوئے انتخابات کے دوران ایک ایسی عبوری نگران حکومت کی تقرری سے متعلق شِق ختم کر دی گئی، جو انتخابات کے آزادانہ اور منصافنہ انعقاد کی ضمانت دیتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اپوزیشن سڑکوں پر
بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیاء (تصویر میں) کا موقف یہ ہے کہ ایک غیر جانبدار نگران حکومت کے بغیر انتخابات غیر قانونی ہوں گے۔ اس جماعت کی طرف سے انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل مؤثر ثابت ہوئی ہے اور اس کے حامی سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ بی این پی اپنی بنیاد پرست حلیف پارٹی جماعتِ اسلامی پر لگائی جانے والی پابندی پر بھی ناراض ہے۔
تصویر: DW/M. Mamun
جماعتِ اسلامی پر پابندی
شیخ حسینہ کی حکومت کی طرف سے مقرر کردہ انٹرنیشنل کرائمز ٹریبیونل نے 2013ء میں جماعتِ اسلامی کے سات رہنماؤں کو سزائے موت سنائی۔ بعد ازاں ہائیکورٹ نے اس جماعت کو کالعدم قرار دے دیا چنانچہ اب یہ جماعت انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی۔ اس کے سات رہنماؤں میں سے ایک عبدالقادر ملا کو، جسے 1971ء کی جنگِ آزادی کے دوران قتل عام اور آبروریزی کے لیے قصور وار قرار دیا گیا تھا، دسمبر میں پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: Reuters
آخری منٹ پر انتخابات میں شرکت کا اعلان
ملک کی تیسری بڑی جماعت جاتیہ پارٹی، جس کے قائد سابق آمر حسین محمد ارشاد (تصویر میں) ہیں، ماضی میں عوامی لیگ کی حلیف رہی ہے۔ اس جماعت نے ابھی جمعرات کو اپنا انتخابی منشور جاری کیا اور یہ عندیہ دیا کہ وہ انتخابات میں حصہ لے گی۔
تصویر: JEWEL SAMAD/AFP/Getty Images
ایک نشست، ایک امیدوار
آدھے سے زیادہ انتخابی حلقوں یعنی 300 میں سے 154 پر محض عوامی لیگ یا اُس کی کسی اتحادی جماعت کا کوئی ایک امیدوار ہی انتخاب لڑ رہا ہے۔ گویا یہ امیدوار ایک بھی ووٹ کاسٹ ہونے سے پہلے کامیاب ہو چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن بھی ابھی سے ان 154 امیدواروں کو ڈھاکہ میں ملکی قومی اسمبلی کے لیے منتخب قرار دے چکا ہے۔