بنگلہ دیش میں طلبہ کے مظاہرے جاری، متعدد پرتشدد واقعات
6 اگست 2018
بنگلہ دیش میں طلبہ کے مظاہرے جاری ہیں اور متعدد مقامات پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔ پولیس مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسوگیس کا استعمال کر رہی ہے۔
اشتہار
بنگلہ دیش میں خطرناک ڈرائیونگ کی وجہ سے دو طلبہ کی ہلاکت کے بعد پہلی بار اس انداز کے مظاہرے دیکھنے میں آ رہے ہیں، جن میں سینکڑوں مظاہرین طلبہ کے لیے تحفظ کے مطالبے کے ساتھ سڑکوں پر ہیں۔ ان مظاہرین کا یہ مطالبہ بھی ہے کہ طلبہ اور صحافیوں پر حملوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔
29 جولائی کو ایک تیز رفتار بس نے دو طلبہ کو کچل دیا تھا، جس کے بعد یہ مظاہرے پھیلتے چلے گئے۔ ڈھاکا کو ملک کے دیگر علاقوں سے ملانے والی اہم شاہ راہوں کو بھی ان مظاہرین نے بند کر رکھا ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق پیر کے روز ڈھاکا کے علاقے رام پورہ میں اس وقت تشدد کا رنگ دکھائی دیا، جب طلبہ نے ایسٹ ویسٹ یونیورسٹی کی قریبی سڑکوں کو بلاک کر دیا۔ یہ مظاہرین انصاف کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اسی طرح باشندھارا کے علاقے میں بھی متعدد جامعات کے طلبہ اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، جب کہ پولیس نے ان مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔ فی الحال یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ ان تازہ واقعات میں کتنے افراد زخمی ہوئے ہیں۔
پیر کے روز پولیس کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ پولیس نے انعام یافتہ فوٹوگرافر شاہدالعالم کو الجزیرہ ٹی وی کے ساتھ ایک انٹرویو میں ’اشتعال انگیز بیان‘ دینے پر حراست میں لے لیا ہے۔ 63 سالہ عالم نے اپنے انٹرویو میں ان نوجوان مظاہرین کی بابت تبصرہ کیا تھا۔
بنگلہ دیشی جمہوریت کے لیے مشکل دور
بنگلہ دیش میں اپوزیشن کے بائیکاٹ کے باوجود اتوار پانچ جنوری کو عام انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔ انتخابات سے پہلے ملک گیر ہنگامے اور ہڑتالیں ایک معمول بن چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Dinodia Photo
سیاسی بد امنی
پانچ جنوری کو بنگلہ دیش میں مجوزہ انتخابات سے ایک سال پہلے سے یہ ملک مسلسل احتجاجی مظاہروں، ہڑتالوں اور تشدد کی لپیٹ میں ہے۔ بڑی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) کے حامیوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان تواتر سے تصادم ہوتا رہا ہے۔ اس جماعت کی قائد نے دسمبر کے اواخر میں انتخابات کو روکنے کے لیے ’جمہوریت کے لیے مارچ‘ کی کال دی تھی۔ مظاہرے جاری ہیں۔
تصویر: MUNIR UZ ZAMAN/AFP/Getty Images
اکثریت انتخابات کے خلاف
ڈھاکہ ٹریبیون کے ایک تازہ سروے کے مطابق ملک کے 77 فیصد شہری انتخابات کے انعقاد کے خلاف ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) کی شرکت کے بغیر یہ انتخابات ناقابل قبول ہوں گے۔ اس جائزے کے مطابق 37 فیصد ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔
تصویر: MUNIR UZ ZAMAN/AFP/Getty Images
کاروبارِ زندگی مفلوج
سڑکوں، ریلوے لائنوں اور آبی راستوں کی ناکہ بندی نے بنگلہ دیش کی معیشت اور عوام پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ڈھاکہ چیمبرز آف کامرس کے مطابق ایک دن کی ناکہ بندی سے ملکی معیشت کو 200 ملین ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ کسانوں کو اپنی مصنوعات منڈیوں تک پہنچانے اور ٹیکسٹائل ملوں کو اپنی مصنوعات بروقت روانہ کرنے میں مشکلات درپیش ہیں۔
تصویر: DW/Mustafiz Mamun
آزادانہ اور منصفانہ انتخابات؟
عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والی وزیر اعظم شیخ حسینہ (تصویر میں) اور اپوزیشن کے درمیان انتخابی عمل میں حال ہی میں متعارف کروائی جانے والی اصلاحات بھی وجہِ نزاع بنی ہوئی ہیں۔ حسینہ کے دورِ حکومت میں آئین میں ترمیم کرتے ہوئے انتخابات کے دوران ایک ایسی عبوری نگران حکومت کی تقرری سے متعلق شِق ختم کر دی گئی، جو انتخابات کے آزادانہ اور منصافنہ انعقاد کی ضمانت دیتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اپوزیشن سڑکوں پر
بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیاء (تصویر میں) کا موقف یہ ہے کہ ایک غیر جانبدار نگران حکومت کے بغیر انتخابات غیر قانونی ہوں گے۔ اس جماعت کی طرف سے انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل مؤثر ثابت ہوئی ہے اور اس کے حامی سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ بی این پی اپنی بنیاد پرست حلیف پارٹی جماعتِ اسلامی پر لگائی جانے والی پابندی پر بھی ناراض ہے۔
تصویر: DW/M. Mamun
جماعتِ اسلامی پر پابندی
شیخ حسینہ کی حکومت کی طرف سے مقرر کردہ انٹرنیشنل کرائمز ٹریبیونل نے 2013ء میں جماعتِ اسلامی کے سات رہنماؤں کو سزائے موت سنائی۔ بعد ازاں ہائیکورٹ نے اس جماعت کو کالعدم قرار دے دیا چنانچہ اب یہ جماعت انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی۔ اس کے سات رہنماؤں میں سے ایک عبدالقادر ملا کو، جسے 1971ء کی جنگِ آزادی کے دوران قتل عام اور آبروریزی کے لیے قصور وار قرار دیا گیا تھا، دسمبر میں پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: Reuters
آخری منٹ پر انتخابات میں شرکت کا اعلان
ملک کی تیسری بڑی جماعت جاتیہ پارٹی، جس کے قائد سابق آمر حسین محمد ارشاد (تصویر میں) ہیں، ماضی میں عوامی لیگ کی حلیف رہی ہے۔ اس جماعت نے ابھی جمعرات کو اپنا انتخابی منشور جاری کیا اور یہ عندیہ دیا کہ وہ انتخابات میں حصہ لے گی۔
تصویر: JEWEL SAMAD/AFP/Getty Images
ایک نشست، ایک امیدوار
آدھے سے زیادہ انتخابی حلقوں یعنی 300 میں سے 154 پر محض عوامی لیگ یا اُس کی کسی اتحادی جماعت کا کوئی ایک امیدوار ہی انتخاب لڑ رہا ہے۔ گویا یہ امیدوار ایک بھی ووٹ کاسٹ ہونے سے پہلے کامیاب ہو چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن بھی ابھی سے ان 154 امیدواروں کو ڈھاکہ میں ملکی قومی اسمبلی کے لیے منتخب قرار دے چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Dinodia Photo
8 تصاویر1 | 8
پولیس کے مطابق انہیں سادہ لباس میں اہلکاروں نے حراست میں لیا۔ ایک پولیس افسر نے اے ایف پی کو بتایا، ’’انہیں پیر کو علی الصبح ہمارے دفتر میں لایا گیا۔ ہم ان سے چھان بین کر رہے ہیں کہ انہوں نے اشتعال انگیز بیانات کے لیے غلط معلومات کیوں استعمال کیں۔‘‘
ویک اینڈ پر بھی پولیس اور طلبہ کے درمیان کئی مقامات پر جھڑپیں ہوئی تھیں، جب کہ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پولیس نے طلبہ کے خلاف طاقت کا زبردست استعمال کیا۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ان جھڑپوں کے نتیجے میں سو سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔