بنگلہ دیش میں عبوری حکومت معاشی اصلاحات کی متحمل ہو سکے گی؟
11 اگست 2024بنگلہ دیش گزشتہ کئی دنوں سے عالمی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ اس جنوبی ایشیائی ملک میں جاری مسلسل اور پرُ تشدد احتجاج، خونریزی، طلبا کا ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آنا اور پھر شیخ حسینہ کی حکومت کا ڈرامائی طور پر تختہ الٹ دینا، یکے بعد دیگرے ایسے حالات پیدا ہوتے چلے گئے جو بین الاقوامی سطح پر خبروں کی زینت بنے رہے۔
سرکاری نوکریوں میں رائج کوٹہ سسٹم کے خلاف طلبا کی جانب سے شروع ہونے والا احتجاج بلا آخر حکومت کے خاتمے تک جاری رہا۔
بنگلہ دیش میں رائج کوٹہ سسٹم کیا ہے؟
بنگلہ دیش میں سرکاری نوکریوں پر لاگو کوٹہ اسکیم میں اچھی تنخواہ والی اور محفوظ سرکاری ملازمتوں کا نصف سے زیادہ مخصوص گروہوں کے لیے مختص ہے۔ مظاہرین نے اس امر کو امتیازی اور غیر منصفانہ سلوک قرار دیا اور بلا آخر حسینہ واجد کو ملک بدر ہونے پر مجبور کر دیا۔ اب بنگلہ دیش میں عبوری حکوت بن چکی ہے۔ تاہم مسلسل ہنگاموں نے پہلے سے معاشی طور پر کمزور ملک کو مزید مسائل میں ڈال دیا ہے۔
بنگلہ دیش کے پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ایک ماہر اقتصادیات اور ڈائریکٹر احسن ایچ منصور کے مطابق، ''نجی شعبے میں بھی زیادہ ملازمتیں پیدا نہیں ہو رہی ہیں اور بنگلہ دیشی نوجوانوں کو بے روزگاری کا سامنا ہے۔‘‘
نوجوانوں کے لیے ناکافی آسامیاں
ایک سو ستر ملین کی آبادی والے اس ملک میں تقریبا نصف سے زائد کی عمر 30 سال کے قریب ہے۔ 15 سے 24 سال کی عمر بے روزگاری کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ 2023 میں یہ 15 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ دوسری طرف ہر سال سینکڑوں ہزاروں نوجوان لیبر مارکیٹ میں داخل ہورہے ہیں۔
منصور کے مطابق، ’’تعلیم کے انتہائی خراب معیار اور مطلوبہ مہارتوں کے فقدان کے باعث وہ ملازمتوں پر رکھے جانے کے قابل ہی نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نوجوان احساس کمتری کا شکار ہورہے ہیں اور انہیں یہ بھی لگتا ہے کہ انہیں دھوکا دیا جارہا ہے۔‘‘
عوام پر مہنگائی کا بوجھ
موجودہ صورتحال میں جمعرات کو حلف اٹھانے والے نوبل انعام یافتہ محمد یونس کی قیادت میں عبوری حکومت کو درپیش بڑے مسائل میں سے ایک نوکریوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ لیکن یہ واحد چیلنج نہیں ہے، جو بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کو درپیش ہوگا حالیہ برسوں میں مسلسل بلند افراط زر کی شرح 2023 میں تقریباً 10 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
منصور کے مطابق، ''لوگ اب مایوس ہو چکے ہیں اور ملک میں آمدنی کی تقسیم اور عدم مساوات کی صورتحال مزید بگڑ رہی ہے۔‘‘
ڈھاکہ میں قائم پالیسی ڈائیلاگ سینٹر کی سربراہ فمیدہ خاتون کا بھی یہی کہنا تھا کہ ملک میں معیشت مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کورونا کی عالمی وبا اور یوکرین جنگ کے باعث دنیا بھر میں معیشتوں کو زوال کا سامنا رہا ہے تاہم بنگلہ دیش کے علاوہ تقریباً تمام ممالک اپنی افراط زر کو کم کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔‘‘
بنیادی اصلاحات کی ضرورت
حسینہ کی خود ساختہ جلا وطنی اور اس سے قبل ہونے والے ہنگاموں کے بعد سے ملک میں قائم کئی فیکٹریوں اور دکانوں میں کاروبار ٹھپ ہوچکا ہے۔ اس میں بنگلہ دیش کی معیشت میں بنیادی کردار ادا کرنے والی ٹیکسٹائل کی صنعت بھی شامل ہے۔
یہ ملک بیرون ملک کپڑے برآمد کر کے سالانہ 46 بلین ڈالر سے زیادہ کماتا ہے، جن میں سے زیادہ تر یورپ اور امریکہ بھیجا جاتا ہے۔ تقریباً 4000 فیکٹریوں میں کام کرنے والے 40 لاکھ سے زائد کارکنان، جن میں زیادہ تر خواتین کام کرتی ہیں، جو دنیا کے کئی اعلیٰ برانڈز بشمول لیویز، زارا اور ایچ این ایم کو کپڑے سپلائی کرتی ہیں۔
لندن میں قائم کیپٹل اکنامکس کے ماہرین اقتصادیات گیرتھ لیدر اور شیلان شاہ نے اس ہفتے ایک تحقیقی نوٹ میں لکھا، ''معاشی نقطہ نظر سے نئی حکومت کے لیے ان بند فیکٹریوں کو کھولنا اور دوبارہ چلانا ایک ترجیح ہو گی۔‘‘
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی کے مطابق بنگلہ دیش گارمنٹس مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن (بی جی ایم ای اے) کے ڈائریکٹر شون اسلام کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ عبوری انتظامیہ نے کپڑے کے کارخانوں کو دوبارہ کھولنے اور کام کو آسان بنانے میں مدد کے لیے صنعتی اضلاع میں فوج کے دستے تعینات کر دیے ہیں تاکہ متعلقہ علاقوں میں امن و امان کی صورتحال کو قابو میں رکھا جائے۔
منصور کا ماننا ہے کہ معیشت کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ملک کو بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ان اصلاحات میں ریگولیٹری اتھاریٹیز کو مضبوط بنانا، بدعنوانی کا خاتمہ، بینکنگ اور مالیاتی شعبے میں اصلاحات اور ٹیکسیشن اور کسٹم پالیسیاں شامل ہیں۔
شری نیواس (ر ب/ ش خ)