بنگلہ دیش میں فتوے کے اجراء پر پابندی ختم
12 مئی 2011بنگلہ دیشی اٹارنی جنرل محبوب العالم نے جمعرات کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کی تفصیلات جلد ہی جاری کر دی جائیں گی۔ بنگلہ دیش کی ہائی کورٹ نے 2001ء میں فتووں کے اجراء پر پابندی عائد کر دی تھی۔ یہ پابندی اس وقت عائد کی گئی تھی، جب اسلام کے نام پر جاری کیے گئے ان فتووں کی بنیاد پر بالخصوص مسلمان خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے کا سلسلہ زور پکڑ گیا تھا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اٹارنی جنرل محبوب العالم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ فتوے صرف پڑھی لکھی مستند شخصیات کو ہی جاری کرنے چاہییں،'کسی بھی مذہبی معاملے پر فتویٰ جاری کرنے کے لیے مفتی کا مستند ہونا ضروری ہے اور ان فتووں پر عمل کروانے کے لیے زبردستی نہیں ہونی چاہیے'۔
محبوب العالم نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بارے میں مزید بتاتے ہوئے کہا،'کوئی بھی سزا، چاہے وہ جسمانی تشدد ہو یا پھر ذہنی اذیت، فتوے کے نام پر نہیں دی جا سکتی'۔
دوسری طرف بنگلہ دیش میں اسلامی سکالر اور وکیل عمران صدیقی نے کہا ہے کہ عدالتی فیصلے کے مطابق ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ آخر فتویٰ کون جاری کر سکتا ہے۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ سپریم کورٹ اپنے تفصیلی فیصلے میں تمام جزیات کا بغور جائزہ لے گی۔
بنگلہ دیش کے مذہبی گرپوں نے عدالت عظمٰی کے اس فیصلے کو سراہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فتویٰ اسلامی تعلیمات کا ایک جزو ہے اور اس پر پابندی درست نہیں تھی۔ دوسری طرف انسانی حقوق کے اداروں کا کہنا ہے کہ کئی واقعات میں فتوے کے نام پر بالخصوص خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
90 فیصد مسلم آبادی رکھنے والے ملک بنگلہ دیش میں سیکولر نظام حکومت قائم ہے۔ تاہم غریب دیہی علاقوں میں مقامی تنازعات کے حل کے لیے فتوے بھی جاری کیے جاتے ہیں۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: امجد علی