بنگلہ دیش میں مجیب الرحمٰن کے قتل کے ملزمان کی سزائے موت برقرار
19 نومبر 2009سن1971ء میں بنگلہ دیش کو آزادی دلانے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے شیخ مجیب الرحمٰن کے قتل میں مجرم قرار پانے والے پانچ افراد کو موت کی سزا دی جائے گی۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اس کیس کی طویل سماعت کے بعد آج یہ فیصلہ سنایا۔
شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی اور موجودہ بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے سن 1996ء میں پہلی مرتبہ اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے والد کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث افراد کے خلاف مقدمے کا آغاز کروایا تھا۔ ملزمان میں کئی اعلیٰ فوجی افسر بھی شامل تھے۔ تین ملزمان کوعدالت نے بری قرار دیا تھا جبکہ 6 بیرون ملک فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ ان ملزمان میں سے ایک زمبابوے میں اپنے قیام کے دوران موت کا شکار ہوگیا تھا، جبکہ بقیہ پانچ آج بھی زندہ ہیں۔ سپریم کورٹ نے انہی پانچ افراد کے خلاف سنائی گئی موت کی سزا بحال رکھی ہے۔
بنگلہ دیش میں عوامی سطح پر اس فیصلے کا مجموعی طور پر خیرمقدم کیا گیا۔ وکیل استغاثہ سید انیس الحق نے اس عدالتی فیصلے کے حوالے سے کہا: "عدالت نے ہمارے دلائل کو تسلیم کیا ہے اور ہم اب امید کرتے ہیں کہ جلد ہی ان مجرموں کی موت کی سزا پر عمل درآمد ہوگا۔‘‘
اسی تناظر میں بات کرتے ہوئے وزیر اعظم شیخ حسینہ کے ترجمان نقیب الدین احمد نے کہا: ’’وزیراعظم نے فیصلہ سننے کے بعد شکرانے کی دعا کی اور اپنے حامیوں سے بھی اپیل کی کہ اس سانحے میں مارے جانے والے تمام لوگوں کے لیے وہ بھی دعا کریں۔‘‘
عدالتی فیصلے کے وقت دارالحکومت ڈھاکہ میں حفاظت کے سخت انتظامات کئے گئے تھے۔ عدالت کے احاطے میں اور عدالت کے باہر بھی لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ آتے ہی لوگوں نے وزیر اعظم حسینہ واجد اور ان کی جماعت عوامی لیگ کے حق میں نعرے لگانے شروع کردئے۔
تقریباً 34 برس قبل ڈھاکہ میں دھان منڈی کے علاقے میں شیخ مجیب الرحمان کو ان کے تین بیٹوں، اہلیہ اور دیگر رشتہ داروں کے ہمراہ ان کی رہائش گاہ پرایک فوجی بغاوت کے دوران قتل کردیا گیا تھا۔ یوں پاکستان سے آزادی حاصل کرنے کے صرف چار سال بعد ہی بنگلہ دیش کے بانی کے قتل کے ساتھ ملک کے پہلے جمہوری نظام کی بساط لپیٹ دی گئی تھی۔
رپورٹ : عبدالرؤف انجم
ادارت : گوہر نذیر