1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش میں محصور پاکستانی کس کی ذمے داری؟

شکور رحیم، اسلام آباد1 اپریل 2015

بنگلہ دیشی کیمپوں میں اڑھائی لاکھ سے زائد محصور پاکستانیوں کی واپسی کے لیے پاکستانی سپریم کورٹ میں دائر کردہ درخواست رد کیے جانے کے بعد ان غیر بنگالی یا بہاری افراد کی پاکستان واپسی کا معاملہ پھر کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔

بنگلہ دیش میں محصور لاکھوں پاکدتانی: عشروں کی محرومی اور بے وطنیتصویر: Lalage Snow/AFP/Getty Images

عدالت نے سال 2009ء میں محصور پاکستانیوں کی عمومی وطن واپسی کی کمیٹی (SPGRC) کی جانب سے دائر کردہ ایک درخواست پر منگل 31 مارچ کو اپنا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے یہ درخواست مسترد کر دی تھی۔ اس درخواست میں بنگلہ دیش میں محصور اڑھائی لاکھ سے زائد پاکستانیوں کی وطن واپسی کی استدعا کی گئی تھی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ درخواست گزار تنظیم کا نہ تو کہیں اندراج ہے اور نہ ہی قوانین کے مطابق وہ اس معاملے میں کوئی متاثرہ فریق ہے۔

اس مقدمے میں ایس پی جی آر سی کے وکیل رشید الحق قاضی نے کہا کہ انہیں یہ درخواست مسترد کیے جانے پر افسوس ہے اور اگر کمیٹی چاہے گی تو وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’بنگلہ دیشی کیمپوں میں محصور لاکھوں لوگ جو گزشتہ 43 برسوں سے انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، وہ پیدائشی طور پر پاکستان کے شہری ہیں۔ 1971ء میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد یہ پاکستانی حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے غیر بنگالی شہریوں کو واپس لاتی۔ اسی طرح بنگلہ دیشی حکومت کو بھی بنگالیوں کو پاکستان سے واپس لے کر جانا تھا۔‘‘

رشید الحق قاضی نے کہا کہ 19 اپریل 1974ء کو پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان طے پانے والے ایک سہ فریقی معاہدے کے تحت بھی پاکستان اس امر کا پابند ہے کہ وہ ان پاکستانی شہریوں کو وطن واپس لائے۔

1971ء میں پاکستانی ریاست کے دو لخت ہو جانے کے بعد وہاں رہ جانے والے غیر بنگالیوں کی اکثریت کو نوآزاد ریاست بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ اور اس کے گرد و نواح میں قائم کیمپوں میں محصور کر دیا گیا تھا۔ ان کیمپوں کے مکینوں کی ناگفتہ بہ حالت کے خلاف انسانی حقوق کی تنظیمیں عشروں سے آوازیں اٹھاتی آئی ہیں۔

ڈھاکہ کے جنیوا مہاجر کیمپ میں محصور پاکستانیوں کے پانچ سو خاندان رہتے ہیںتصویر: Lalage Snow/AFP/Getty Images

پاکستان میں اقتدار میں آنے والی مختلف حکومتیں ان محصورین کی وطن واپسی کے لیے اقدامات کے حوالے سے کئی دعوے کرتی رہی ہیں۔ پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم نواز شریف نے 1993ء میں اپنے ایک سابقہ دور حکومت میں 325 ایسے محصورین کو بنگلہ دیش سے واپس لا کر پنجاب میں میاں چنوں اور مظفر گڑھ میں آباد کیا تھا۔ تاہم اس کے بعد سے اب تک ایسے مزید محصورین کی کوئی واپسی نہیں ہوئی۔

پاکستانی وزارت خارجہ نے اسلام آبا دکی سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستانی ریاست ان محصورین کو واپس لانے کی اپنی ذمے داری انجام دے چکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیشی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ اپنے فیصلوں میں ان محصورین کو بنگلہ دیشی شہری قرار دے چکی ہیں۔ مزید یہ کہ اب ان افراد کے نام بنگلہ دیشی انتخابی فہرستوں میں بھی شامل کیے جا چکے ہیں۔

بنگلہ دیش سے ان محصورین کی واپسی کے حق میں آواز اٹھانے والے پاکستانی صحافی حامد میر کا کہنا ہے کہ اسلام آبا دمیں ملکی وزارت خارجہ کی رپورٹ بے حسی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’یہ محصورین وہ لوگ ہیں جنہوں نے پاکستانی فوج کے آپریشن میں یہ جانتے ہوئے بھی ان کا ساتھ دیا کہ بعد میں وہ تنہا رہ جائیں گے اور وہ بنگلہ دیش بننے کے بعد آج تک خود کو پاکستانی کہتے ہیں۔ لیکن یہ کہنا کہ وہ اب پاکستان کی ذمہ داری نہیں یہ ان پاکستانیوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ بھی بے وفائی ہے۔‘‘

حامد میر کے مطابق بنگلہ دیش میں محصور بہاریوں نے پاکستان کے لئے دو مرتبہ یعنی 1947ء میں اور پھر 1971ء میں ہجرت کی۔ ’’اب اپنے بڑوں کے ساتھ ہونے والا یہ سلوک دیکھ کر ان بہاریوں کی نئی نسل پاکستانی حکومتوں سے نالاں ہے اور وہ اب اپنے بنگلہ دیش میں ہی رہنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔‘‘ حامد میر کے بقول یہ صورتحال پاکستانی حکمرانوں کے لیے لمحہء فکریہ ہونی چاہیے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں