بنگلہ دیش میں ایک مسافر بردار کشتی ایک کارگو کشتی سے ٹکرا کر غرق ہو گئیی اس واقعے میں چھ بچوں سمیت کم از کم 21 افراد ہلاک ہو گئے ہیں جب کہ درجنوں لاپتا ہیں۔
اشتہار
بنگلہ دیشی حکام کے مطابق یہ واقعہ ملک کے مشرقی حصے میں واقع ایک جھیل میں اس وقت پیش آیا، جب ریت سے لدی ایک کشتی ایک مسافر بردار کشتی سے ٹکرا گئیی حکام کا کہنا ہے کہ بیجوئے نگر حادثے کے وقت اس کشتی پر لگ بھگ ساٹھ افراد سوار تھےی تاہم بعض مقامی میڈیا کے مطابق مسافروں کی تعداد تقریباً 100تھی۔
مقامی انتظامی افسر حیات الدولہ خان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا کہ مال بردار جہاز کی فولادی چونچ نے مسافر بردار کشتی کو بری طرح نقصان پہنچایا اور یہ کشتی تیزی سے ڈوب گئی۔
حکام کا کہنا ہے کہ اس جھیل سے مزید لاشیں نکالنے کے لیے ریسکیو سرگرمیاں جاری ہیں جب کہ ان امدادی سرگرمیوں میں مقامی افراد بھی پیش پیش ہیںی حکام کے مطابق اب تک چھ بچوں سمیت 21 لاشیں نکالی جا چکی ہیں، تاہم ہلاکتوں میں اضافہ کا خدشہ ہے۔
پولیس کے مطابق ریسکیو کیے گئے سات افراد کو قریبی ہسپتال بھی منتقل کیا گیا ہےی اس حادثے میں زندہ بچ جانے والی اخی اختر نے بتایا، ''جب یہ حادثہ ہوا تو میں تیر کر کنارے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی، مگر میری باقی فیملی تاحال لاپتا ہے۔‘‘
مقامی حکام نے اس حادثے کی وجوہات جاننے کے لیے ایک تفتیشی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ بنگلہ دیش میں اس انداز کے حادثے ایک معمول ہیںی ابھی رواں برس اپریل ہی میں کشتیوں کو پیش آنے والے دو حادثوں میں 54 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں سے جنگ، بنگلہ دیش میں تیرتے باغ
بنگلہ دیش موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سمندری سطح میں اضافے کے باعث سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں سے ایک ہے۔ اب وہاں کسانوں نے سیلاب زدہ علاقوں میں کاشت کاری کے لیے نئے طریقے استعمال کرنا شروع کر دیے ہیں۔
تصویر: DW
تیرتے کھیت
بنگلہ دیش میں کسان ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، جہاں ان کے کھیت اب ہر وقت ہی زیرآب نظر آتے ہیں۔ ان متاثرہ علاقوں میں کسانوں نے نامیاتی مواد سے کھیت بنانا شروع کر دیے ہیں، جو پانی پر تیرتے دکھائی دیتے ہیں اور ان میں سبزیاں اگائی جاتی ہیں۔
تصویر: DW
سبزیاں تیرتے ہوئے کھیتوں میں
کسانوں نے لکڑی، بانس، گوبر، مٹی، اور برادے اور گلے سڑے پھولوں کو استعمال کرتے ہوئے ایسے کھیت بنا لیے ہیں، جو پانی پر تیرتے ہیں۔ پانی کی سطح میں اضافے کے باوجود اتنی مدت کے لیے ضرور زیر آب نہیں آتے، جب تک کہ سبزیاں اگ کر تیار نہیں ہو جاتیں۔
تصویر: DW
بھنڈی اور پالک سے دھنیے تک
یہ کسان موسم گرما ہو یا سرما ایسے ہی تیرتے کھیتوں میں بھنڈیاں یا پتوں والی سبزیاں اگاتے نظر آتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے زرعی برآمدات کے شعبے کے مطابق یہ طریقہ سستا اور پائیدار ہے۔
تصویر: DW
کشتی پر اسکول
صرف کسان ہی تیرنے والے کھیتوں کا استعمال نہیں کر رہے، بلکہ اب بنگلہ دیش میں بارشوں کے دوران، جب ملک کا قریب نصف حصہ زیرآب ہوتا ہے، طلبہ کو پرائمری تعلیم بھی کشتیوں پر بنائے گئے اسکولوں میں مہیا کی جاتی ہے۔ ایسے اسکول گزشتہ ایک دہائی سے کام کر رہے ہیں اور خصوصاﹰ ملک کے شمال میں ان کی تعداد خاصی زیادہ ہے۔
تصویر: Getty Images
کمپیوٹر اور شمسی بلب
ان کشتی اسکولوں میں کمپیوٹر بھی موجود ہیں اور انٹرنیٹ کی سہولت بھی۔ مقامی غیرسرکاری تنظیمیں اب طلبہ کو شمسی بلب بھی دے رہی ہیں، تاکہ وہ ایسے علاقوں میں جہاں بجلی موجود نہیں، ایسے شمسی قمقموں کو استعمال کر سکیں۔
تصویر: Getty Images
ماضی کی روایات سے حال کا علاج
بنگلہ دیش میں خانہ بدوش سپیرے کشتیوں پر رہتے تھے۔ وہ مختلف دریاؤں کو استعمال کرتے ہوئے شہر شہر اور گاؤں گاؤں جایا کرتے تھے۔ یہ روایات اب ختم ہوتی جا رہی ہے، مگر ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث اس رویت کے نئے رنگوں کے ساتھ دوسری جہتوں میں اپنایا جانے لگا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Munir Uz Zaman
بڑے مسئلے کا چھوٹا حل
ماہرین کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی ایک بہت بڑا مسئلہ ہیں اور تیرتے کھیت اور اسکول اس کا ایک بہت چھوٹا حل ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اگلے پانچ برسوں میں بنگلہ دیش میں قریب 20ملین افراد بے گھر ہو جائیں گے اور کئی جزیرے صفحہء ہستی سے مٹ جائیں گے۔ اس لیے اس ملک کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ایک موثر اور جامع حکمتِ عملی تیار کرنا ہو گی۔
تصویر: Shahidul Alam/Drik/Majority World
7 تصاویر1 | 7
اہرین کے مطابق کشتیوں کی ناقص حالت، دیکھ بھال کے خراب معیارات اور سیفٹی کے معاملے میں قدرے سستی اس انداز کے حادثوں کی بڑی وجوہات ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ریت ڈھونے والی کشتیاں پانی کی سطح کے قریب ہوتی ہیں اور روشنی کم ہو تو ٹھیک سے دکھائی نہیں دیتیں۔ گزشتہ برس جون میں دارالحکومت ڈھاکا میں ایک کشتی اس وقت ڈوب گئی تھی، جب ایک اور کشتی اس سے پیچھے سے جا ٹکرائی تھی۔ اس واقعے میں بھی 32 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔