بنگلہ دیش میں مظاہروں کے بعد جماعت اسلامی پر پابندی عائد
2 اگست 2024جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے حکومتی پابندی کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اسے آئین کے خلاف قرار دیتے ہوئے ملک میں حالیہ پرتشدد مظاہروں کی پشت پناہی کے الزامات سے بھی انکار کیا ہے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سربراہ شفیق الرحمان نے جمعرات کو اپنے ردعمل میں کہا کہ حکومت نے طلبہ کی غیر سیاسی تحریک کو دبانے کے لیے حکمران جماعت اور امن و قانون کو یقینی بنانے والی ریاستی قوتوں کے ذریعے قتل عام کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک کے اساتذہ، ثقافتی شخصیات، صحافی اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ حکومت کی اس 'نسل کشی‘ کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ انہوں نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ بنگلہ دیش جماعت اسلامی اور اس کی طلبہ تنظیم بنگلہ دیش اسلامی چھاترشبّر پر پابندی لگا کر اپنی غلط کاریوں کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔
اس سے قبل جمعرات کو بنگلہ دیشی حکومت نے جماعت اسلامی، اس کے طلبہ ونگ اور دیگر ذیلی تنظیموں کو ''عسکریت پسند اور دہشت گرد‘‘ قرار دیتے ہوئے ان پر پابندی عائد کر دی۔ یہ حکومتی اقدام ملک گیر کریک ڈاؤن کی اس مہم کے تحت کیا گیا، جو ملک میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف ہفتوں تک جاری رہنے والے پرتشدد مظاہروں میں دو سو افراد کی ہلاکت اور ہزاروں افراد کے زخمی ہونے کے بعد شروع کیا گیا تھا۔
بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ اور ان کے سیاسی حلیفوں نےان مظاہروں کے دوران طلبہ کو تشدد پر اکسانےکی ذمہ داری جماعت اسلامی، اس کے طلبہ ونگ اور دیگر ذیلی تنظیمیوں پر عائد کی تھی۔ امریکی خبر رساں ادارے دی ایسوسی ایٹڈ پریس کی جانب سے دیکھے گئے ایک سرکاری سرکلر میں بنگلہ دیش کی وزارت داخلہ نے جمعرات کو کہا کہ یہ پابندی انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت لگائی گئی ہے۔
ملک بھر میں 10,000 سے زائد گرفتاریاں
جمعرات کو پابندی کے اعلان سے قبل وزیر اعظم شیخ حسینہ اپنی پارٹی کے پروگرام کے دوران کہا کہ جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترا شبّر پابندی کے بعد''زیر زمین‘‘ جا کر تخریبی سرگرمیاں کر سکتے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اس صورت میں ان کے ساتھ عسکریت پسند گروپوں کی طرح نمٹا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کوٹہ اصلاحات کی تحریک میں شامل حالیہ تشدد میں ملوث ہونے کی وجہ سے جماعت اسلامی پر پابندی عائد کرنے کے لیے تیار ہے۔
شیخ حسینہ، جنہیں ان کے ناقدین ایک آمر کے طور پر دیکھتے ہیں، کے دور میں حزب اختلاف کے ہزاروں رہنماؤں اور کارکنوں کو جنوری میں گزشتہ انتخابات سے قبل گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس کے بعد وہ ان انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے لگاتار چوتھی بار بنگلہ دیش کی وزیر اعظم بنی تھیں۔ انسانی حقوق کے عالمی گروپوں نے ان پر حزب اختلاف کو دبانے کے لیے سکیورٹی فورسز اور عدالتوں کا استعمال کرنے کا الزام لگایا ہے۔
حکومت نے ایسے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں مخصوص الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ حالیہ تشدد کے بعد ملک بھر میں مخالف شخصیات سمیت 10,000 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
جماعت اسلامی پر بنگلہ دیش میں پابندیوں کی تاریخ
بنگلہ دیشی الیکشن کمیشن کی جانب سے جماعت اسلامی کی رجسٹریشن منسوخ کیے جانے کے بعد اس جماعت پر سن 2013 سے قومی انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد ہے۔ اس فیصلے کو بعد میں ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔ عدالت نے قرار دیا کہ پارٹی کے آئین نے سیکولرازم کی مخالفت کرکے قومی آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ تاہم اس وقت جماعت اسلامی کو سیاسی سرگرمیوں جیسے جلسے، ریلیاں اور بیانات دینے سے نہیں روکا گیا تھا۔
اس اقدام کے دس سال بعد ملکی سپریم کورٹ نے 2023 ء میں ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ اس طرح یہ طویل قانونی جنگ پارٹی کو انتخابات میں حصہ لینے یا پارٹی کے نشانات کے استعمال سے روک دینے کے ساتھ ختم ہوئی۔ لیکن پھر سپریم کورٹ نے اس پر مکمل پابندی نہیں لگائی۔ سن 2013 میں بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکہ میں نوجوانوں کے گروپوں، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور سیکولر سیاسی جماعتوں کی قیادت میں ایک عوامی بغاوت نے جماعت اسلامی کی قیادت کو 1971 ءکے جنگی جرائم میں ان کے کردار کے لیے پھانسی دینے کا مطالبہ کیا۔
پارٹی کے بیشتر سینئر رہنماؤں کو سن 2013 میں عدالتوں کی جانب سے سن 1971 میں قتل، اغوا اور جنسی زیادتیوں سمیت انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہونے پر سزائیں سنائے جانے کے بعد پھانسیاں دی گئیں تھیں یا انہیں جیل بھیج دیا گیا تھا۔ بنگلہ دیش نے 16 دسمبر 1971ء کو ہمسایہ ملک بھارت کی مدد سے پاکستان سے آزادی حاصل کی تھی۔ بنگلہ دیش کا کہنا ہے کہ اس جنگ کے دوران 30 لاکھ لوگ مارے گئے، 200,000 خواتین کا ریپ کیا گیا اور تقریباً 10 لاکھ لوگ پڑوسی ملک بھارت فرار ہونے پر مجبور ہوئے۔
بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد سن 1971ء میں اس کے بانی رہنما اور وزیر اعظم شیخ حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمان کی انتظامیہ نے بڑے پیمانے پر قتل و غارت اور مظالم میں اس کے کردار کی وجہ سے جماعت پر پابندی عائد کر دی تھی۔ یہ پابندی ایک سال بعد یعنی 1976ء میں مجیب الرحمان کو ان کے خاندان کے بیشتر افراد کے ساتھ ایک فوجی بغاوت میں قتل کر دیے جانے کے بعد ختم کر دی گئی تھی۔
1975ء میں جرمنی میں موجود ہونے کی وجہ سے شیخ حسینہ اور ان کی چھوٹی بہن شیخ ریحانہ اس حملے میں زندہ بچ گئی تھیں۔ جماعت اسلامی کو اس سے قبل بھی دو بار پاکستان میں سن 1959 اور 1964ء میں اس کے فرقہ وارانہ کردار کی وجہ سے کالعدم قرار دیا گیا تھا۔ جماعت اسلامی سن2001 سے 2006ء میں سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاء کے ساتھ اقتدار کی شراکت کے معاہدے کے تحت کابینہ کے دو قلمدان بھی رکھ چکی ہے۔
خالدہ ضیا بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی سربراہ ہیں، جو بنگلہ دیش میں مرکزی اپوزیشن پارٹی اور شیخ حسینہ کی سب سے بڑی حریف ہیں۔ بی این پی کے سیکرٹری جنرل مرزا فخر الاسلام عالمگیر نے اپنے ردعمل میں کہا ہےکہ جماعت اسلامی پر پابندی کا فیصلہ حالیہ تشدد کے بعد موجودہ سیاسی صورتحال سے توجہ ہٹانے کے لیے حسینہ واجد کی انتظامیہ کا ایک حربہ ہے۔
ش ر⁄ ع ب ( اے پی)