بنگلہ دیش میں مندروں کی توڑ پھوڑ پر بھارت کا اظہار تشویش
جاوید اختر، نئی دہلی
15 اکتوبر 2021
بنگلہ دیش میں درگا پوجا کے تہوار کے دوران مسلمانوں کے مقدس کتاب قرآن کی مبینہ توہین کے واقعے پر کئی مندروں کی توڑ پھوڑ کی خبریں ہے۔ بھارت نے تشدد کے ان واقعات کو "تشویش کن" قرار دیا ہے۔
اشتہار
ہندووں کے مذہبی تہوار درگا پوجا یا دسہرہ کے دوران بنگلہ دیش میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کو مبینہ طور پر ایک مورتی پر رکھے جانے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ملک کے مختلف مقامات پر تشدد کے واقعات پیش آئے۔ کئی مندروں کو نشانہ بنائے جانے کی خبریں ہیں۔ تشدد پر قابو پانے کے لیے پولیس کی فائرنگ میں کم ا زکم چار افراد ہلاک اور درجنوں دیگر زخمی ہوگئے۔ ان میں 15پولیس اہلکار شامل ہیں۔
نئی دہلی میں بھارتی وزارت خارجہ نے پڑوسی ملک میں تشدد کے ان واقعات پر تشویش کا اظہار کیا تاہم حالات کوفوراً قابو میں کر لینے کے لیے ڈھاکہ حکومت کی تعریف بھی کی۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان ارِندم باگچی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”ہم نے ناخوشگوار واقعات کی تشویش کن رپورٹیں دیکھی ہیں، جن میں بنگلہ دیش میں (ہندو) مذہبی تقریبات پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ بنگلہ دیش حکومت نے صورت حال پر قابو پانے کے لیے موثر اقدامات کیے جن میں قانون نافذ کرنے والی مشنری کی فوراً تعیناتی شامل ہے۔"
ارِندم باگچی نے مزید کہا کہ ڈھاکہ میں بھارتی ہائی کمیشن بنگلہ دیش کی حکومت اور مقامی حکام کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔ انہوں نے کہا، ”ہم سمجھتے ہیں کہ بنگلہ دیش حکومت کی مختلف ایجنسیوں اور عوام کے ایک بڑے طبقے کے تعاون سے درگا پوجا کی تقریبات جاری رہیں گی۔"
معاملہ کیا تھا؟
بدھ کے روز ایک ویڈیو وائرل ہوگیا جس میں درگا پوجا کے ایک منڈپ میں دیگر ہندوں دیوی دیوتاوں کی مورتیوں کے درمیان موجود ہنومان دیوتا کے گھٹنے پر مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کو رکھا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔
اشتہار
اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد ملک کے کئی حصوں میں ہجوم نے توڑ پھوڑ کی۔ حاجی گنج میں مشتعل ہجوم پر قابو پانے کے لیے پولیس نے فائرنگ کی جس میں چار افراد ہلاک اور ڈیڑھ سو سے زائد دیگر زخمی ہو گئے۔ ان میں 15پولیس اہلکار اور کئی صحافی شامل ہیں۔
جمعرات کے روز بھی دو مقامات پر تشدد کے واقعات پیش آئے۔ ہجوم نے مندروں پر حملہ کر دیا۔ پولیس کے ایک افسر نے بتایا کہ تشدد کے الزام میں 40 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
تشدد بھڑکانے والوں کو شیخ حسینہ کی وارننگ
بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے مندروں پر حملے کرنے والوں کو سخت وارننگ دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندو مندروں اور درگا پوجا کے منڈپوں کو نشانہ بنانے والوں کو بخشا نہیں جائے گا۔
بنگلہ دیش کی سرکاری خبر رساں ایجنسی یو این بی کے مطابق شیخ حسینہ نے اپنے ایک بیان میں کہا،”کیومیلا (میں تشدد کے) واقعات کی تفصیلی انکوائری کرائی جارہی ہے۔ کسی کو بخشا نہیں جائے گا۔ خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ انہیں تلاش کیا جائے گا اور سخت سزا دی جائے گی۔" بنگلہ دیش کی وزیر اعظم نے ہندو برادری کو درگا پوجا کی مبارک باد بھی دی۔
بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ اسدالزماں خان نے بھی کہا کہ کومیلا واقعے میں ملوث افراد کو تلاش کیا جائے گا۔”ہم اس واقعے میں ملوث تمام افراد کا پتہ لگائیں گے۔ ہم نے ان میں سے بعض کی نشاندہی کرلی ہے اور انہیں جلد ہی گرفتار کرلیا جائے گا۔"
سکیورٹی کے زبردست انتظامات
تشدد کے ان واقعات کے پیش نظر درگا پوجا کے منڈپوں میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ بنگلہ دیش کے 64 میں سے 22 اضلاع میں نیم فوجی دستے تعینات کیے گئے ہیں۔ مندروں پر حملے کے واقعات کے بعد ہندو اکثریتی شہر چاٹگام میں بھی سکیورٹی میں اضافہ کردیا گیا ہے۔
تقریباً 17کروڑ کی آبادی والے بنگلہ دیش میں ہندووں کی تعداد 10فیصد ہے۔ حالیہ برسوں میں دونوں فریق میں تنازعات کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر بعض متنازعہ واقعات کے وائرل ہونے کے بعد حملو ں کے کئی واقعات ہوچکے ہیں۔
سن 2016 میں ایک فیس بک پوسٹ میں اسلام کے مقدس مقامات کی مبینہ توہین کرنے پر پانچ مندروں میں توڑ پھوڑ کی گئی تھی۔
جاوید اختر (اے ایف پی کے ساتھ)
بھارت میں قرآن کے انتہائی نادر نسخوں کی نمائش
دہلی کے نیشنل میوزیم میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کے انتہائی نادر نسخوں کی ایک نمائش کا انعقاد کیا گیا تھا جن میں ساتویں صدی عیسوی سے لے کر انیسویں صدی تک کے قرآنی خطاطی کے نمونوں کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔
تصویر: J. Akhtar
حاشیے میں تفسیر عزیزی
اٹھارہویں صدی میں لکھے گئے قرآن کے اس نسخے کے حاشیے میں تفسیر عزیزی کا متن بھی درج ہے۔
تصویر: J. Akhtar
خط بہاری میں لکھا گیا سترہویں صدی کا قرآنی نسخہ
خط بہاری میں تحریر کردہ یہ قرآنی نسخہ 1663ء میں تیار کیا گیا تھا۔ نئی دہلی میں بھارتی نیشنل میوزیم کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر بی آر منی کے مطابق یہ خط صوبہ بہار کی دین ہے اور اسی وجہ سے اس رسم الخط کو یہ نام دیا گیا تھا۔ اپنے منفرد رسم الخط کی وجہ سے عبدالرزاق نامی خطاط کا لکھا ہوا یہ قرآنی نسخہ بہت تاریخی اہمیت کاحامل ہے۔
تصویر: J. Akhtar
انتہائی نایاب خط ثلث
پندرہویں صدی میں تحریر کردہ یہ قرآنی نسخہ خط ثلث میں ہے۔ اس رسم الخط میں تحریر کردہ قرآنی نسخے بہت ہی نایاب ہیں۔ بھارتی نیشنل میوزیم میں موجود یہ نسخہ نامکمل ہے۔
تصویر: J. Akhtar
کئی رنگوں کے امتزاج سے خطاطی کا تاریخی نمونہ
اس تصویر میں خط نسخ میں لکھا گیا ایک نادر قرآنی نسخہ نظر آ رہا ہے۔ اس نسخے کے ابتدائی صفحات خط کوفی خط میں لکھے گئے ہیں۔ یہ نسخہ سرخ، سیاہ، پیلے، سبز اور سنہرے رنگوں میں خطاطی کے شاندار امتزاج کا نمونہ ہے۔
تصویر: J. Akhtar
خطاطی خط نسخ میں لیکن جلد بندی بہت منفرد
انیسویں صدی میں لکھا گیا یہ نسخہ ماضی میں کپورتھلہ کے مہاراجہ کے خزانے کا حصہ تھا۔ خط نسخ میں تحریر شدہ اس نسخے کی جلد بندی میں خوبصورت بیل بوٹوں کا استعمال کیا گیا ہے جن سے یہ دیکھنے میں اور بھی خوبصورت نظر آتا ہے۔
تصویر: J. Akhtar
سترہویں صدی میں حسن ابدال میں لکھا گیا نسخہ
چھوٹی جسامت والا یہ قرآن انتہائی نایاب نسخوں میں سے ایک ہے، جسے عرف عام میں اس کے مٹھی جتنے سائز کی وجہ سے ’مشتی‘ بھی کہتے ہیں۔ 1602ء میں حسن ابدال (موجودہ پاکستان) میں اس نسخے کی تیاری میں بہت ہی باریک کاغذ استعمال کیا گیا ہے، جس پر تیاری کے دوران طلائی پاؤڈر بھی چھڑکا گیا تھا۔ اس نسخے کے پہلے صفحے پر مغل بادشاہ شاہجہاں کی مہر بھی ثبت ہے۔
تصویر: J. Akhtar
پہلے سات پارے چوتھے خلیفہ علی ابن علی طالب کے تحریر کردہ
ساتویں صدی عیسوی کا یہ نسخہ غیر معمولی حد تک قیمتی ہے، جو نئی دہلی کے نیشنل میوزیم میں محفوظ نادر قرآنی نسخوں میں سے قدیم ترین بھی ہے۔ اس کے پہلے صفحے پر درج عبارت کے مطابق اس کے سات پارے خلفائے راشدین میں سے چوتھے خلیفہ علی ابن علی طالب کے تحریر کردہ ہیں۔ یہ نسخہ کبھی گولکنڈہ (دکن) کے حکمران قطب شاہ کے خزانے کا حصہ ہوا کرتا تھا، جسے چمڑے پر خط کوفی میں لکھا گیا ہے۔
تصویر: J. Akhtar
آٹھویں صدی میں خط کوفی میں عراق میں لکھا گیا قرآنی نسخہ
آٹھویں صدی عیسوی میں یہ قرآنی نسخہ عراق میں تیار کیا گیا تھا۔ اسے بہت قدیم رسم الخط قرار دیے جانے والے خط کوفی میں تحریر کیا گیا ہے۔ نئی دہلی میں قومی عجائب گھر کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر منی کے مطابق یہ تمام نایاب قرآنی نسخے نیشنل میوزیم کی ملکیت ہیں، جن کی نمائش رواں ماہ کے آخر یعنی 31 مارچ 2018ء تک جاری رہے گی۔
تصویر: J. Akhtar
مغل بادشاہوں شاہجہان اور اورنگ زیب کی مہروں کے ساتھ
یہ تاریخی نسخہ 1396ء میں ریشمی کاغذ اور سمرقندی سِلک پیپر پر خط ریحان میں تحریر کیا گیا تھا۔ اس کے پہلے صفحے پر مغل بادشاہوں شاہجہاں اور اورنگ زیب کی شاہی مہریں لگی ہوئی ہیں۔
تصویر: J. Akhtar
لفظ ’اللہ‘ ہر بار سونے کے پانی سے لکھا ہوا
انڈین نیشنل میوزیم کے سابق کیوریٹر اور معروف اسکالر ڈاکٹر نسیم اختر کے مطابق ان قرآنی نسخوں میں سے کئی کے صفحات کو ’سونے کے پانی‘ سے تحریر کیا گیا ہے، جب کہ ایک نسخہ ایسا بھی ہے، جس میں بار بار آنے والا لفظ ’اللہ‘ ہر مرتبہ سونے سے لکھا گیا ہے۔ خط نستعلیق میں یہ قرآنی نسخہ انیسویں صدی میں تحریر کیا گیا تھا۔
تصویر: J. Akhtar
ایک کرتے پر مکمل قرآن اور اللہ کے ننانوے نام بھی
اٹھارہویں صدی میں تیار کردہ اس کرتے پر پورا قرآن لکھا گیا ہے، جو ایک غیر معمولی اثاثہ ہے۔ کرتے کے دائیں بازو پر اللہ کے صفاتی نام درج ہیں۔ اس قرآن کی بہت ہی باریک کتابت خط نسخ کی گئی ہے اور اس کرتے پر اللہ کے ننانوے نام خط ریحان میں تحریر کیے گئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ پوری دنیا میں اپنی نوعیت کا بہت ہی منفرد اور واحدکرتا ہے۔