قصورواروں پر وزیر اعظم کو قتل کرنے کا منصوبہ بنانے کا الزام تھا۔ اس کیس کا تعلق اس وقت سے ہے جب شیخ حسینہ پہلی بار وزير اعظم کے عہدے پر فائز ہوئی تھیں۔
اشتہار
ڈھاکہ کی ایک خصوصی عدالت نے منگل 23 مارچ کو ان چودہ عسکریت پسندوں کو موت کی سزا سنا دی جن پر بیس برس قبل وزیر اعظم شیخ حسینہ کو قتل کرنے کی ناکام کوشش کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
بھارتی اخبار 'ٹائمز اف انڈیا' کی ایک خبر کے مطابق عدالت میں جج ابو ظفر محمد قمرالزمان نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا، '' اس فیصلے پر فائرنگ اسکواڈ کے ذریعے عمل کیا جائے تاکہ ایک مثال قائم ہو سکے۔''
اس کیس میں پانچ ملزمان مفرور ہیں جب کہ نو ملزمان عدالت میں موجود تھے اور عدالت نے انہیں کے سامنے فیصلہ سنایا۔ سرکاری وکیل عبداللہ بھوئلیان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا کہ عدالت نے سبھی چودہ ملزموں کو بغاوت اور مجرمانہ سازش کا قصوروار ٹھہرایا تھا۔
انہوں نے بنگلہ دیش میں سلسلہ وار بم دھماکوں کے لیے مورد الزام ٹھہرائے جانی والی ایک ممنوعہ شدت پسند تنظیم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’وہ شدت پسند ہیں جن کا تعلق حرکت الجہاد الاسلامی سے ہے۔‘‘
مدرسے میں سیکس ایجوکیشن
02:35
حسینہ ان کے نشانے پر کیوں تھیں؟
مسلم شدت پسند تنظیمیں مبینہ طور پر شیخ حسینہ کے سیکولر موقف سے نالاں تھیں۔ ان پر کئی بار حملوں کی کوششیں کی گئی اور سن 2000 کے بم حملے کی سازش بھی اسی کڑی کا ایک حصہ تھی۔ حرکت الجہاد الاسلامی مسلم اکثریتی ملک بنگلہ دیش میں اسلامی قوانین کے نفاذ کی وکالت کرتی ہے۔
شدت پسندوں نے ایک کالج میں دو بم نصب کیے تھے جہاں شیخ حسینہ کو ایک ریلی سے خطاب کرنا تھا لیکن ان بموں کو وقت پر ناکارہ بنا دیا
گیا تھا۔ اسی کے بعد سے بنگلہ دیش کی حکومت نے ایسے شدت پسندوں کا تعاقب اور ان کے خلاف کارروائیاں شروع کیں۔
سکیورٹی فورسز اب تک ایسے مشتبہ سو سے بھی زیادہ افراد کو ہلاک کر چکی ہیں جبکہ ایک ہزار سے بھی زیادہ کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔
شیخ حسینہ سن 2018 میں بھی مسلسل تیسری بار انتخابات میں کامیاب ہوئی تھیں اور اس طرح وہ چوتھی بار وزارت عظمی کے عہدے پر فائز ہوئیں۔ تاہم ملک کی اپوزیشن جماعتیں ان پر انتخابات میں دھاندلی کے الزامات بھی عائد کرتی رہی ہیں۔
ص ز/ ج ا (اے پی اے، ایف پی)
بنگلہ دیش کا ’ڈیتھ اسکواڈ‘ سوشل میڈیا کی جانچ پڑتال کرے گا
بنگلہ دیشی حکومت سوشل میڈیا کی جانچ پڑتال کی ذمہ داری پیراملٹری فورس کو تفویض کرنے کا سوچ رہی ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ حکومتی فیصلہ آزادئ رائے کے منافی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
داغ دار شہرت
ریپڈ ایکشن بٹالین (RAB) سن 2004 میں قائم کی گئی تھی تاکہ بنگلہ دیش میں فروغ پاتی اسلام پسندی کو قابو میں لایا جا سکے۔ اس فورس نے ابتداء میں چند جہادی عقائد کے دہشت گردوں کو ہلاک کیا یا پھر گرفتار کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس فورس کی شہرت بتدریج داغ دار ہوتی چلی گئی اور یہ خوف کی علامت بن کر رہ گئی۔ اسے موت کا دستہ یا ’ڈیتھ اسکواڈ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
فیس بک، یوٹیوب اور سکیورٹی
بنگلہ دیش کی حکومت فیس بک، یوٹیوب اور دیگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی نگرانی پر بارہ ملین یورو یا تقریباً چودہ ملین امریکی ڈالر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس منصوبے کے تحت ریپڈ ایکشن بٹالین ریاست مخالف پراپیگنڈے، افواہوں اور اشتعال انگیز مضامین یا بیانات کیا اشاعت کی نگرانی کرے گی۔ نگرانی کا یہ عمل انٹرنیٹ پر دستیاب کمیونیکشن کے تمام ذرائع پر کیا جائے گا۔
تصویر: imago/Future Image
ڈھاکا حکومت پر بین الاقوامی دباؤ کا مطالبہ
سویڈن میں مقیم بنگلہ دیشی صحافی تسنیم خلیل کا کہنا ہے کہ ریپڈ ایکشن بٹالین کو استعمل کرتے ہوئے ڈھاکا حکومت اپنے مخالفین کو گرفتار یا نظربند کرنے کا پہلے ہی سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ خلیل نے یورپی یونین اور ایسے دوسرے اداروں سے کہا ہے کہ وہ بنگلہ دیشی حکومت کو ایسا اقدام کرنے سے روکے جو عام شہریوں کی آزادی کو سلب کرنے کے مساوی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
آزادئ صحافت کو محدود کرنے کا نیا قانون
بنگلہ دیشی حکومت نے حال ہی میں ایک نیا قانون ’ دی ڈیجیٹل ایکٹ‘ متعارف کرایا ہے۔ اس قانون کے تحت انٹرنیٹ پر ریاست مخالف یا قانونی اختیار کو درہم برہم کرنے یا مذہبی جذبات کو مجروح کرنے یا نسلی ہم آہنگی کے منافی کوئی بھی بیان شائع کرنے کے جرم پر سات برس تک کی قید سزا سنائی جا سکتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ حکومتی ناقدین کو خاموش کرنے طور پر اس قانون کا استعمال کر سکتی ہے۔
تصویر: government's press department
ذرائع ابلاغ کا احتجاج
پیر پندرہ اکتوبر کو مسلم اکثریتی ملک بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں اہم اخبارات کے مدیران نے نیشنل پریس کلب کے باہر انسانی زنجیر بنائی۔ اس موقع پر مطالبہ کیا گیا کہ ’دی ڈیجیٹل ایکٹ‘ کی مختلف نو شقوں میں ترامیم کی جائیں کیونکہ یہ آزاد صحافت اور آزادئ رائے کے راستے کی رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ اس مظاہرے کے جواب میں کوئی حکومتی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
تصویر: bdnews24.com
صحافت بھی جاسوسی کا ذریعہ ہو سکتی ہے!
ایک سینیئر ایڈیٹر محفوظ الرحمان کا کہنا ہے کہ نئے قانون کے تحت اگر کوئی صحافی کسی حکومتی دفتر میں داخل ہو کر معلومات اکھٹی کرتا پایا گیا تو اُسے جاسوسی کے شبے میں چودہ سال تک کی سزائے قید سنائی جا سکتی ہے۔ محفوظ الرحمان کا مزید کہنا ہے کہ یہ نیا قانون سائبر کرائمز کے چیلنج کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ آزاد میڈیا کے گلے میں ہڈی کی طرح اٹک جائے گا۔
تصویر: bdnews24.com
ناروا سلوک
بنگلہ دیش آزاد صحافت کی عالمی درجہ بندی میں 180 ممالک میں 146 ویں پوزیشن پر ہے۔ ڈھاکا حکومت نے عالمی دباؤ کے باوجود انسانی حقوق کے سرگرم کارکن شاہد العالم کو پسِ زندان رکھا ہوا ہے۔ العالم نے رواں برس اگست میں طلبہ کے پرامن مظاہرے پر طاقت کے استعمال کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور وہ اسی باعث گرفتار کیے گئے۔ اس گرفتاری پر حکومتی ناقدین کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔