بنگلہ دیش: نئی پارلیمان کا اجلاس، اپوزیشن کی ضد نئے الیکشن
30 جنوری 2019
بنگلہ دیش میں آج بدھ تیس جنوری کو ملک کی نو منتخب قومی پارلیمان کا اولین اجلاس منعقد ہوا لیکن اپوزیشن تاحال اپنی اس ضد پر قائم ہے کہ ایک ماہ قبل کی جانے والی ’بہت زیادہ دھاندلی‘ کے باعث دوبارہ عام انتخابات کرائے جائیں۔
اشتہار
ملکی دارالحکومت ڈھاکا سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق 30 دسمبر کو ہوئے گزشتہ عام الیکشن میں وزیر اعظم شیخ حسینہ کو ایسے نتائج حاصل ہو گئے تھے کہ وہ مسلسل تیسری مرتبہ بھی سربراہ حکومت بن جائیں، کیونکہ ان انتخابات میں ان کی جماعت عوامی لیگ کو 96 فیصد رائے دہندگان کی تائید حاصل ہوئی تھی۔
بنگلہ دیش کا ’ڈیتھ اسکواڈ‘ سوشل میڈیا کی جانچ پڑتال کرے گا
بنگلہ دیشی حکومت سوشل میڈیا کی جانچ پڑتال کی ذمہ داری پیراملٹری فورس کو تفویض کرنے کا سوچ رہی ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ حکومتی فیصلہ آزادئ رائے کے منافی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
داغ دار شہرت
ریپڈ ایکشن بٹالین (RAB) سن 2004 میں قائم کی گئی تھی تاکہ بنگلہ دیش میں فروغ پاتی اسلام پسندی کو قابو میں لایا جا سکے۔ اس فورس نے ابتداء میں چند جہادی عقائد کے دہشت گردوں کو ہلاک کیا یا پھر گرفتار کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس فورس کی شہرت بتدریج داغ دار ہوتی چلی گئی اور یہ خوف کی علامت بن کر رہ گئی۔ اسے موت کا دستہ یا ’ڈیتھ اسکواڈ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
فیس بک، یوٹیوب اور سکیورٹی
بنگلہ دیش کی حکومت فیس بک، یوٹیوب اور دیگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی نگرانی پر بارہ ملین یورو یا تقریباً چودہ ملین امریکی ڈالر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس منصوبے کے تحت ریپڈ ایکشن بٹالین ریاست مخالف پراپیگنڈے، افواہوں اور اشتعال انگیز مضامین یا بیانات کیا اشاعت کی نگرانی کرے گی۔ نگرانی کا یہ عمل انٹرنیٹ پر دستیاب کمیونیکشن کے تمام ذرائع پر کیا جائے گا۔
تصویر: imago/Future Image
ڈھاکا حکومت پر بین الاقوامی دباؤ کا مطالبہ
سویڈن میں مقیم بنگلہ دیشی صحافی تسنیم خلیل کا کہنا ہے کہ ریپڈ ایکشن بٹالین کو استعمل کرتے ہوئے ڈھاکا حکومت اپنے مخالفین کو گرفتار یا نظربند کرنے کا پہلے ہی سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ خلیل نے یورپی یونین اور ایسے دوسرے اداروں سے کہا ہے کہ وہ بنگلہ دیشی حکومت کو ایسا اقدام کرنے سے روکے جو عام شہریوں کی آزادی کو سلب کرنے کے مساوی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
آزادئ صحافت کو محدود کرنے کا نیا قانون
بنگلہ دیشی حکومت نے حال ہی میں ایک نیا قانون ’ دی ڈیجیٹل ایکٹ‘ متعارف کرایا ہے۔ اس قانون کے تحت انٹرنیٹ پر ریاست مخالف یا قانونی اختیار کو درہم برہم کرنے یا مذہبی جذبات کو مجروح کرنے یا نسلی ہم آہنگی کے منافی کوئی بھی بیان شائع کرنے کے جرم پر سات برس تک کی قید سزا سنائی جا سکتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ حکومتی ناقدین کو خاموش کرنے طور پر اس قانون کا استعمال کر سکتی ہے۔
تصویر: government's press department
ذرائع ابلاغ کا احتجاج
پیر پندرہ اکتوبر کو مسلم اکثریتی ملک بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں اہم اخبارات کے مدیران نے نیشنل پریس کلب کے باہر انسانی زنجیر بنائی۔ اس موقع پر مطالبہ کیا گیا کہ ’دی ڈیجیٹل ایکٹ‘ کی مختلف نو شقوں میں ترامیم کی جائیں کیونکہ یہ آزاد صحافت اور آزادئ رائے کے راستے کی رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ اس مظاہرے کے جواب میں کوئی حکومتی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
تصویر: bdnews24.com
صحافت بھی جاسوسی کا ذریعہ ہو سکتی ہے!
ایک سینیئر ایڈیٹر محفوظ الرحمان کا کہنا ہے کہ نئے قانون کے تحت اگر کوئی صحافی کسی حکومتی دفتر میں داخل ہو کر معلومات اکھٹی کرتا پایا گیا تو اُسے جاسوسی کے شبے میں چودہ سال تک کی سزائے قید سنائی جا سکتی ہے۔ محفوظ الرحمان کا مزید کہنا ہے کہ یہ نیا قانون سائبر کرائمز کے چیلنج کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ آزاد میڈیا کے گلے میں ہڈی کی طرح اٹک جائے گا۔
تصویر: bdnews24.com
ناروا سلوک
بنگلہ دیش آزاد صحافت کی عالمی درجہ بندی میں 180 ممالک میں 146 ویں پوزیشن پر ہے۔ ڈھاکا حکومت نے عالمی دباؤ کے باوجود انسانی حقوق کے سرگرم کارکن شاہد العالم کو پسِ زندان رکھا ہوا ہے۔ العالم نے رواں برس اگست میں طلبہ کے پرامن مظاہرے پر طاقت کے استعمال کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور وہ اسی باعث گرفتار کیے گئے۔ اس گرفتاری پر حکومتی ناقدین کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Uz Zaman
7 تصاویر1 | 7
لیکن ٹھیک ایک ماہ قبل کرائے گئے ان انتخابات کے بارے میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی یا بی این پی کی قیادت میں قائم اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے اتحاد کی طرف سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان انتخابات میں ’بہت زیادہ دھاندلی کر کے ان کے نتائج کو چرا لیا‘ گیا تھا۔
اپوزیشن کا بائیکاٹ کا فیصلہ
اسی لیے آج ڈھاکا میں جب قومی اسمبلی کی عمارت میں نو منتخب ارکان اسمبلی کا اولین اجلاس منعقد ہوا تو اپوزیشن اتحاد کی طرف سے کہا گیا کہ اس کے ارکان اس پارلیمان کی کارروائی کا بائیکاٹ کریں گے اور اس وقت تک اپنے بھرپور احتجاجی مظاہرے بھی جاری رکھیں گے، جب تک کہ اگلے چھ ماہ کے اندر اندر ملک میں نئے سرے سے عام انتخابات منعقد نہیں کرائے جاتے۔
گزشتہ برس کے آخری اتوار کے دن ہونے والے اس الیکشن میں بی این پی سمیت اپوزیشن اتحاد کو اتنے برے نتائج حاصل ہوئے تھے کہ نئی پارلیمان میں اب اس کے ارکان کی تعداد بہت ہی کم ہو کر صرف آٹھ رہ گئی ہے۔ اسی لیے ڈھاکا میں جب آج نو منتخب پارلیمان کا اولین اجلاس شروع ہوا، تو سینکڑوں کی تعداد میں اپوزیشن کارکنون نے احتجاجی مظاہرے بھی کیے۔ اس موقع پر شہر میں پولیس اہلکاروں کی بہت بڑی نفری تعینات کی گئی تھی۔
اس جنوبی ایشیائی ملک میں گزشتہ عام انتخابات کے بارے میں ملکی اپوزیشن اتحاد کے علاوہ بہت سے ناقدین اور کئی بین الاقوامی مبصرین کا بھی یہی کہنا ہے کہ اس جمہوری انتخابی عمل سے قبل اور اس کے دوران بھی بہت سی بےقاعدگیاں دیکھنے میں آئی تھیں۔
’انتخابی نتائج چرا لیے گئے‘
نئی پارلیمان کا پہلا اجلاس شروع ہونے کے موقع پر بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے ایک اعلیٰ عہدیدار مودود احمد نے اے ایف ہی کو بتایا، ’’ہم نے ایک بار پھر مطالبہ کیا ہے کہ موجودہ حکومت مستعفی ہو جائے اور پارلیمان کو تحلیل کر دیا جائے کیونکہ اسے ملک کے عوام نے منتخب نہیں کیا۔‘‘ مودود احمد نے مزید کہا، ’’ان انتخابات اور ان کے نتائج کو چرا لیا گیا تھا، جس کے لیے بہت زیادہ دھاندلی کی گئی تھی۔‘‘
جنوبی ایشیائی ممالک میں میڈیا کی صورت حال
رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز نے پریس فریڈم انڈکس 2018 جاری کر دیا ہے، جس میں دنیا کے 180 ممالک میں میڈیا کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے درجہ بندی کی گئی ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں میڈیا کی صورت حال جانیے، اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: picture alliance/dpa/N. Khawer
بھوٹان
جنوبی ایشیائی ممالک میں میڈیا کو سب سے زیادہ آزادی بھوٹان میں حاصل ہے اور اس برس کے پریس فریڈم انڈکس میں بھوٹان 94 ویں نمبر پر رہا ہے۔ گزشتہ برس کے انڈکس میں بھوٹان 84 ویں نمبر پر تھا۔
تصویر: DJVDREAMERJOINTVENTURE
نیپال
ایک سو اسّی ممالک کی فہرست میں نیپال عالمی سطح پر 106ویں جب کہ جنوبی ایشیا میں دوسرے نمبر پر رہا۔ نیپال بھی تاہم گزشتہ برس کے مقابلے میں چھ درجے نیچے چلا گیا۔ گزشتہ برس نیپال ایک سوویں نمبر پر تھا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/N. Maharjan
افغانستان
اس واچ ڈاگ نے افغانستان میں صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تاہم اس برس کی درجہ بندی میں افغانستان نے گزشتہ برس کے مقابلے میں دو درجے ترقی کی ہے اور اب عالمی سطح پر یہ ملک 118ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں افغانستان تیسرے نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/Tone Koene
مالدیپ
اس برس کے انڈکس کے مطابق مالدیپ جنوبی ایشیا میں چوتھے جب کہ عالمی سطح پر 120ویں نمبر پر ہے۔ مالدیپ گزشتہ برس 117ویں نمبر پر رہا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo(M. Sharuhaan
سری لنکا
جنوبی ایشیا میں گزشتہ برس کے مقابلے میں سری لنکا میں میڈیا کی آزادی کی صورت حال میں نمایاں بہتری دیکھی گئی ہے۔ سری لنکا دس درجے بہتری کے بعد اس برس عالمی سطح پر 131ویں نمبر پر رہا۔
تصویر: DW/Miriam Klaussner
بھارت
بھارت میں صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا، جس پر رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز نے تشویش کا اظہار کیا۔ عالمی درجہ بندی میں بھارت اس برس دو درجے تنزلی کے بعد اب 138ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: DW/S. Bandopadhyay
پاکستان
پاکستان گزشتہ برس کی طرح اس برس بھی عالمی سطح پر 139ویں نمبر پر رہا۔ تاہم اس میڈیا واچ ڈاگ کے مطابق پاکستانی میڈیا میں ’سیلف سنسرشپ‘ میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Mughal
بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ممالک میں میڈیا کو سب سے کم آزادی بنگلہ دیش میں حاصل ہے۔ گزشتہ برس کی طرح امسال بھی عالمی درجہ بندی میں بنگلہ دیش 146ویں نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Stache
عالمی صورت حال
اس انڈکس میں ناروے، سویڈن اور ہالینڈ عالمی سطح پر بالترتیب پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہے۔ چین 176ویں جب کہ شمالی کوریا آخری یعنی 180ویں نمبر پر رہا۔
9 تصاویر1 | 9
اسی انتخابی عمل کے بارے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ اس دوران بہت سے پرتشدد واقعات بھی دیکھنے میں آئے تھے، اپوزیشن کے بےشمار کارکنوں کو گرفتار بھی کر لیا گیا تھا اور کئی مقامات پر ووٹروں کو ڈرانے دھمکانے کے علاوہ ناقدین کی طرف سے یہ الزامات بھی لگائے گئے تھے کہ متعدد پولنگ اسٹیشنوں پر تو بیلٹ باکس دھاندلی کرتے ہوئے پہلے سے ہی بھر دیے گئے تھے۔
روہنگیا مہاجرین واپسی کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے
بنگلہ دیش میں سات لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین پرتشدد حالات سے فرار ہو کر گزشتہ برس پہنچے تھے۔ کیمپوں میں مقیم روہنگیا مہاجرین کے ایک گروپ نے جمعرات پندرہ نومبر کو میانمار واپسی کے خلاف انکار کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
میانمار واپسی کے خلاف مہاجرین کا احتجاج
جمعرات پندرہ نومبر کو میانمار واپسی کے خلاف ڈیڑھ سو روہنگیا مہاجرین نے میانمار کی سرحد پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرے کے دوران مظاہرین’ واپس نہیں جائیں گے‘ کے نعرے لگاتے رہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی واپسی کے عمل پر مطمئن نہیں
بنگلہ دیش اور میانمار نے بائیس سو مہاجرین کی واپسی پر اتفاق کیا تھا۔ اس واپسی کے عمل پر اقوام متحدہ کے علاوہ انسانی حقوق کی تنظمیوں نے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوسے تنقید کی تھی۔ ان اداروں کے مطابق روہنگیا مہاجرین کی واپسی سے دوبارہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
روہنگیا اقلیت کا میانمار کی فوج کے ہاتھوں استحصال
سات لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین میانمار کی راکھین ریاست سے اپنی جانیں بچا کر بنگلہ دیش اگس سن 2017 میں داخل ہوئے تھے۔ ان مہاجرین کا کہنا ہے کہ میانمار کی فوج اور بدھ شہریوں نے اُن کے خاندانوں کا قتلِ عام کیا اور اُن کی خواتین کی اجتماعی عصمت دری بھی کی۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے بھی ان واقعات میں نسل کشی کا الزام میانمار کی فوجی قیادت پر عائد کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
’میں واپس نہیں جاؤں گا‘
پینتیس سالہ روہنگیا مہاجر نورلامین اپنی بیوی اور خاندان کے ہمراہ جمٹولی ریفیوجی کیمپ میں مقیم ہے۔ یہ کاکس بازار کے نواح میں ہے۔ نورلامین اور اس کے خاندان نے واضح کیا ہے کہ وہ اپنے خوف کی وجہ سے میانمار واپس نہیں جانا چاہتے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
دس لاکھ سے زائد روہنگیا ریفیوجی کیمپوں میں
بنگلہ دیشی بندرگاہی شہر کاکس بازار کے ریفیوجی کیمپ میں دس لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس باعث قدرے کمزور معاشی حالات والے ملک بنگلہ دیش کو اسں انسانی المیے سے نبردآزما ہونے میں شدید پیچیگیوں اور مشکلات کا سامنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/M. R.l Hasan
5 تصاویر1 | 5
بین الاقوامی مبصرین کی طرف سے تنقید
کرپشن کے خلاف کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق اس انتخابی عمل کی چھان بین کے دوران جن 50 انتخابی حلقوں کی صورت حال اور وہاں ووٹنگ کے عمل کا جائزہ لیا گیا تھا، اس میں سے 47 حلقوں میں انتخابی بےقاعدگیوں کا پتہ چلا تھا۔
اس کے علاوہ یورپی یونین بھی یہ کہہ چکی ہے کہ 30 دسمبر کا انتخابی عمل ’داغدار‘ تھا اور حکمران عوامی لیگ اور اپوزیشن کی بی این پی کو جمہوری انتخابی جنگ میں مساوی امکانات مہیا کیے ہی نہیں گئے تھے۔
انتخابات کے دوران ووٹروں کے ہراساں کیے جانے کی قابل اعتماد رپورٹوں پر امریکا نے بھی تشویش کا اظہار کیا تھا۔
خود پسندانہ طرز سیاست
ان جملہ الزامات کے برعکس عوامی لیگ کی سربراہ اور مسلسل تیسری بار وزیر اعظم بننے والی شیخ حسینہ کا کہنا ہے کہ قریب ساڑھے سولہ کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں کوئی انتخابی دھاندلی نہیں کی گئی تھی اور شروع سے آخر تک انتخابی عمل کی نگرانی ملکی الیکشن کمشین نے کی تھی۔
شیخ حسینہ کی عمر اس وقت 71 برس ہے، وہ اب تک دو مرتبہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر اپنی جو مدت پوری کر چکی ہیں، اس دوران بنگلہ دیش میں اقتصادی ترقی کی شرح تو ریکارڈ حد تک زیادہ رہی ہے لیکن ان کا دور اقتدار کافی متنازعہ سیاسی اور حکومتی فیصلوں کے علاوہ خود پسندانہ طرز سیاست سے بھی عبارت رہا ہے۔
م م / ع ا / اے ایف پی
جنوبی ایشیا میں بحری جہازوں کے قبرستان
بھارت اور بنگلہ دیش میں بحری جہازوں کو توڑنے والے مزدوروں کوسخت حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس دوران نہ تو حفاظتی اقدامات کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ ہی تحفظ ماحول کا۔ یہ لوگ جان جونکھوں میں ڈال کر یہ کام کرتے ہیں۔
تصویر: Tomaso Clavarino
بے یارو مددگار
یہ تصویر بنگلہ دیشی شہر چٹاگونگ کے شپ بریکنگ یارڈ کی ہے۔ اس صنعت میں کام کرنے والے ایک چوتھائی یا پچیس فیصد مزدور اٹھارہ سال سے کم عمر کے نوجوان ہیں۔ یہاں پر نہ تو مزدوروں کو کوئی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے اور نہ ہی ماحولیات کے بارے میں سوچا جاتا ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت بھی اس معاملے پر کوئی توجہ نہیں دیتی۔
تصویر: Tomaso Clavarino
استحصال
نوجوانوں اور کم عمر بچوں سے اکثر زیادہ کام لیا جاتا ہے اور انہیں دوسروں کے مقابلے میں تنخواہ بھی کم دی جاتی ہے۔
تصویر: Tomaso Clavarino
غیر محفوظ
ناکارہ جہازوں کو توڑنے کے لیے سخت حفاظتی انتظامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ مزدروں کو ہیلمٹ، خاص قسم کے جوتے یا حفاظتی چشمے فراہم کیے جانے چاہییں تاہم نہ تو بھارت اور نہ ہی بنگلہ دیش میں ایسا کیا جاتا ہے۔ شپ بریکنگ یارڈز میں مزدوروں کا شدید زخمی ہونا معمول کی بات ہے۔
تصویر: Tomaso Clavarino
جھلسے ہوئے مزدور
’شیخو‘ چٹاگانگ کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ وہ اس وقت شدید جھلس گیا، جب ايک بحری جہاز کو توڑتے وقت آگ لگ گئی تھی۔
تصویر: Tomaso Clavarino
معذوری
ادریس کبھی شپ بریکنگ صنعت کا ملازم ہوا کرتا تھا۔ ایک حادثے میں اس کی ٹانگ ضائع ہو گئی۔
تصویر: Tomaso Clavarino
زہریلی آلودگی
شپ بریکنگ سے صرف یہاں کے ملازمین ہی متاثر نہیں ہیں بلکہ ارد گرد کے علاقوں کے مکین بھی مشکلات کا شکار ہیں۔ ناکارہ جہازوں سے بہنے والے تیل نے زیر زمین پانی کے ذخائر کو زہریلا بنا دیا ہے۔ ویلڈنگ کے دوران اڑنے والے دھوئیں نے بھی ماحول کو انتہائی آلودہ بنا دیا ہے۔
تصویر: Tomaso Clavarino
کوئی امکان نہیں
جن جن علاقوں میں شپ بریکنگ یارڈز یا بحری جہازوں کے قبرستان موجود ہیں، وہاں کا ماحولیاتی نظام درم برھم ہو چکا ہے۔ اب وہاں نہ کھیتی باڑی کی جا سکتی ہے اور نہ ماہی گیری ہو سکتی ہے۔
تصویر: Tomaso Clavarino
آلنگ
بھارتی ریاست گجرات میں آلنگ کا شپ بریکنگ یارڈ بحری جہازوں کا دنیا کا سب سے بڑا قبرستان کہلاتا ہے۔ یہاں پر کام کرنے والے تقریباً تمام ملازمین کا تعلق شمالی بھارت سے ہے۔ یہ لوگ انتہائی عام سی کٹیاؤں میں رہتے ہیں۔ 2009ء سے اب تک آلنگ میں دو ہزار چھ سو سے زائد بحری جہازوں کو توڑا جا چکا ہے۔
تصویر: Tomaso Clavarino
’بچث‘
آلنگ میں مزدروں کے یہ کٹائیں یا مکان بہت چھوٹے ہیں۔ ان میں نہ تو پانی کا انتظام ہے اور نہ بجلی کی سہولت
تصویر: Tomaso Clavarino
وقفہ
شدید بارش کی صورت میں ملازمین کو کام چھوڑنا پڑتا ہے۔ بغیر کسی حفاظتی انتظام کے یہ لوگ کسی بھی متروک جہاز کے عرشے پر اکھٹے ہو جاتے ہیں۔
تصویر: Tomaso Clavarino
سیاحت بھی
بحری جہازوں کے ان قبرستانوں میں لوگ صرف ملازمت کی غرض سے ہی نہیں آتے بلکہ سیاحوں کی ایک بڑی تعداد بھی جہازوں کو ٹوٹتے ہوئے دیکھنے میں دلچسپی لیتی ہے۔ یہ لوگ ہر مرحلے کی تصاویر بناتے ہیں۔