بنگلہ دیش نے سمندر میں پھنسے سینکڑوں روہنگیاؤں کو بچا لیا
16 اپریل 2020
پناہ کے متلاشی سینکڑوں روہنگیا مسلمان ملائیشیا پہنچنے کی کوشش میں ناکامی کے بعد تقریبا دو ماہ سے سنمدر میں پھنسے تھے جس میں بیشتر خواتین و بچے شامل ہیں۔
اشتہار
پناہ کے متلاشی سینکڑوں روہنگیا مسلمان ملائیشیا پہنچنے کی کوشش میں ناکامی کے بعد تقریبا دو ماہ سے سنمدر میں پھنسے تھے جس میں بیشتر خواتین و بچے شامل ہیں۔
یہ تمام روہنگیا پناہ گزین ملائیشیا پہنچنا چاہتے تھے لیکن چونکہ کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظر ملائیشیا نے ساحلی علاقوں میں گشت و نگرانی بڑھا دی ہے، اس لیے یہ اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکے اور کافی دنوں سے سمندر میں ہی بھٹک رہے تھے۔
پناہ گزینوں سے بھری اس کشتی میں بیشتر خواتین اور بچے سوار تھے۔ بنگلہ دیش کے ساحلی ضلع کوکس بازار کے بہار چھارا گھاٹ پر پہنچتے ہی حکام نے کشتی میں سوار سبھی افراد کو حراست میں لے لیا۔ بنگلہ دیش میں کوسٹ گارڈ کے ایک ترجمان لیفٹنٹ جنرل شاہ ضیا رحمان کا کہنا تھا، ''ہم نے ماہی گیری کے استعمال میں آنے والے ایک بڑے ٹرالر سے کم از کم 382 روہنگیاؤں کو بچا لیا ہے اور ٹیکناف کے ساحل پر انہیں پہنچا دیا گیا ہے۔ وہ سب بھوک سے مر رہے تھے۔ سطح سمندر پر وہ گزشتہ 58 دنوں سے تیر رہے تھے اور گزشتہ ایک ہفتے سے وہ ہمارے علاقے کے پانیوں میں آگے بڑھ رہے تھے۔''
پناہ کے متلاشی ان روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار ابتاتے ہوئے شاہ ضیا رحمان نے بتایا کہ جن افراد کو بچا یا گیا ہے ان کے مطابق، ''پر ہجوم کشتی میں سوار 32 روہنگیا سفر کے دوران چل بسے جن کی لاشوں کے مجبورا ًسمندر میں پھینک دینا پڑا۔ بعض افراد نے سفر کے دوران کشتی میں سوار مرنے والوں کی تعداد 28 بتائی ہے۔
انہوں نے اس سے متعلق اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، "بنگلہ دیش میں روہنگیاؤں کی جو کشتی آج پہنچی ہے اس میں افراتفری کا منظر ہے۔ ملائیشیا نے کشتی کو اپنے علاقے میں داخل ہونے سے منع کیا اور ایسا تین بار ہونے کے بعد یہ واپس آئی۔ بہت سے پہلے ہی ہلاک ہوچکے اور کچھ کشتی میں مرے پڑے ہیں۔ کورونا وائرس کی وباء کے پیش نظر کئی بنگلہ دیشی ان کی مدد کرنے سے بھی ڈر رہے ہیں۔"
بنگلہ دیش میں اس وقت تقریبا دس لاکھ روہنگیا مہاجرین نے پناہ لے رکھی ہے جو پڑسی ملک میانمار میں ہونے والے مظالم سے بچنے کے لیے وہاں پہنچے ہیں۔
یاد رہے کہ میانمار کے صوبے راکھین میں روہنگیا کے خلاف فوجی کریک ڈاون کے بعد سات لاکھ پچاس ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان
میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش کی سرحد پرکیمپوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس میں سے بیشتر کوکس بازار کے کیمپوں میں ناگفتہ بہ حالت میں رہنے پر مجبور ہیں۔
میانمار کی راکھین ریاست میں فوجی کارروائی سن 2017 میں شروع کی گئی تھی، جسے اقوام متحدہ نسلی تطہیر سے تعبیر کرتا ہے۔ اب تک تقریباً دس لاکھ روہنگیاؤں نے اپنے گھروں کو چھوڑ کر پیدل اور کشتیوں کے ذریعے پڑوسی ملک بنگلہ دیش کا رخ کیا۔ میانمار حکومت کے مطابق فوجی کارروائی روہنگیا شدت پسندوں کے خلاف شروع کی گئی تھی تاہم اس دوران فوج پر تشدد، جنسی زیادتی اور قتل کے الزامات بھی عائد کے گئے۔ لیکن میانمار روہنگیا اقلیت کی اجتماعی عصمت دری اور ہلاکتوں جیسے تمام الزامات سے انکار کرتا رہا ہے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی ڈی پی اے)
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
میانمار (برما) کے مغربی صوبے راكھین میں روہنگیا مسلمانوں کی آبادی تقریباﹰ دس لاکھ ہے۔ لیکن ان کی زندگیاں تشدد، امتیازی سلوک، بے بسی اور مفلسی سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ جانیے روہنگیا اقلیت کے بارے میں حقائق۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
کوئی ملک نہیں
روہنگیا خواتین، بچوں اور مردوں کا کوئی ملک نہیں ہے یعنی ان کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں۔ رہتے یہ ميانمار میں ہیں لیکن انہیں صرف غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر مانا جاتا ہے۔
تصویر: DW/C. Kapoor
سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا
میانمار کے اکثریتی بدھ مت افراد اور اس ملک کی سکیورٹی فورسز پر روہنگیا مسلمانوں کو نسلی تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ روہنگیا لوگوں کو کوئی بھی حقوق یا اختیار حاصل نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ دنیا کی وہ اقلیت ہے، جسے اس وقت سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
سفری پابندیاں
یہ لوگ نہ تو اپنی مرضی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پر جا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی سے کام کر سکتے ہیں۔ جن گھروں اور جھونپڑیوں میں یہ رہتے ہیں، انہیں کبھی بھی اور کسی بھی وقت خالی کرنے کو کہہ دیا جاتا ہے۔ میانمار میں ان لوگوں کی کہیں بھی سُنوائی نہیں ہوتی۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
کیا یہ بنگالی ہیں؟
یہ لوگ کئی دہائیوں سے راكھین صوبے میں رہ رہے ہیں لیکن وہاں کے بدھ مت لوگ انہیں "بنگالی" کہہ کر دھتكارتے ہیں۔ یہ لوگ جو بولی بولتے ہیں، ویسی بنگلہ دیش کے جنوبی علاقے چٹاگانگ میں بولی جاتی ہے۔ روہنگیا لوگ سنی مسلمان ہیں۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
پرخطر سفر
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 2012ء میں مذہبی تشدد کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد سے تقریباﹰ ایک لاکھ بیس ہزار روہنگیا مسلمان راكھین چھوڑ چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ سمندر میں کشتیاں ڈوبنے سے ہلاک بھی ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Pruksarak
اجتماعی قبریں
ملائیشیا اور تھائی لینڈ کی سرحد کے قریب روہنگیا افرادکی متعدد اجتماعی قبریں ملی ہیں۔ 2015ء میں جب غیرقانونی تارکین کے خلاف کچھ سختی کی گئی تو کشتیوں پر سوار سینکڑوں روہنگیا کئی دنوں تک سمندر میں پھنسے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Ismail
انسانی اسمگلنگ
روہنگیا اقلیت کی مجبوری کا فائدہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ مجبور لوگ اپنی جمع پونجی انہیں سونپ کر کسی محفوظ مقام کے لیے اپنی زندگی خطرے میں ڈالنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
تصویر: DW/C. Kapoor
بنگلہ دیش کی طرف نقل مکانی
میانمار سے ملحق بنگلہ دیش کے جنوبی حصے میں تقریباﹰ تین لاکھ روہنگیا باشندے رہتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں، جو میانمار سے جان بچا کر وہاں پہنچے ہیں۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
پناہ حاصل کرنا آسان نہیں
ایسے روہنگیا کم ہی ہیں، جنہیں بنگلہ دیشی حکومت مہاجرین کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ یہ کشتیوں کے ذریعے بنگلہ دیش میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بنگلہ دیشی سکیورٹی فورسز انہیں زبردستی واپس میانمار کی طرف بھیج دیتی ہیں۔
تصویر: Reuters
جہاں بھی پناہ ملے
بنگلادیش کے علاوہ روہنگیا لوگ بھارت، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور چین جیسے ممالک کا بھی رخ کر رہے ہیں۔ یہ سبھی ممالک میانمار سے قریب ہیں۔
تصویر: DW/C. Kapoor
’امن کے لیے خطرہ‘
میانمار کی سکیورٹی فورسز کے مطابق چیک پوسٹوں پر ہونے والے حالیہ چند حملوں میں روہنگیا نسل کے باغی ملوث تھے۔ اس کے جواب میں روہنگیا باشندوں کے کئی دیہات کو جلا دیا گیا تھا۔ سکیورٹی فورسز کے مطابق یہ ’امن کے لیے خطرہ‘ ہیں۔
تصویر: Reuters/Soe Zeya Tun
انسانی حقوق کی تنظیموں کی اپیل
انسانی حقوق کے متعدد گروپ میانمار حکومت سے اپیل کر چکے ہیں کہ روہنگیا کو بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ملکی شہریت دی جائے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Yulinnas
قانونی رکاوٹ
میانمار میں روہنگیا افراد کو ایک نسلی گروپ کے طور پر تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ اس کی ایک وجہ 1982ء کا وہ قانون بھی ہے، جس کے مطابق شہریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی نسلی گروپ کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ 1823ء سے قبل بھی میانمار میں ہی تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Win
آنگ سان سوچی پر تنقید
نوبل امن انعام یافتہ اور حکمران پارٹی کی لیڈر آنگ سان سوچی نے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر تقریبا خاموشی اختیار کر رکھی ہے، جس پر انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس معاملے پر ملک کی طاقتور فوج سے اختلاف کرنا نہیں چاہتی۔