1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش، پروفیسر کے قتل میں ملوث افراد کی گرفتاری

عدنان اسحاق17 مئی 2016

بنگلہ دیش کی پولیس نے کہا کہ انہوں نے ایک کالعدم عسکریت پسند گروپ کے چار افراد کو حراست میں لیا ہے۔ گرفتار شدگان میں اس تنظیم کا ایک اہم کمانڈر بھی ہے۔ ان افراد پر ایک یورنیورسٹی پروفیسر کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa/NurPhoto/Z.H. Chowdhury

راج شاہی پولیس کے کمشنر محمد شمس الدین نے بتایا کہ منگل کو گرفتار کیے جانے ان چاروں افراد کا تعلق جماعت المجاہدین بنگلہ دیش گروپ سے ہے اور اس تنظم کا علاقائی کمانڈر بھی اب پولیس کے تحویل میں ہے۔ شمال مغربی بنگلہ دیش کے شہر راج شاہی کی سرکاری یونیورسٹی میں انگریزی کے پروفیسر رضاالکریم صدیق کو تیئس اپریل کو قتل کیا گیا تھا۔ ان پر اس وقت حملہ کیا گیا، جب وہ یونیورسٹی سے اپنے گھر جا رہے تھے۔ حملہ آور چاقوؤں اور خنجروں سے لیس تھے اور بعد ازاں فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ پروفیسر صدیق ملحد تھے اس لیے انہیں موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔

تصویر: Getty Images/AFP/str

شمس الدین کے مطابق اس اہم کمانڈر کا نام مسکوت حسن شکیب ہے اور یہ عبداللہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انہوں نے اس دوران یہ بھی بتایا کہ عبداللہ کو اتوار کی شب حراست میں لیا گیا تھا اور مجسٹڑیٹ کے سامنے پیش ہونے سے قبل ہی اس نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا تھا۔ دوران پوچھ گچھ حاصل ہونے والی معلومات کی بناء پر ہی مزید تین مشتبہ جنگجوؤں کی گرفتاری بھی عمل میں آئی ہے۔

2007ء میں جماعت المجاہدین بنگلہ دیش کے چھ اہم ارکان کو پھانسی دیے جانے کے بعد اس تنظیم کی سرگرمیوں میں کافی کمی واقع ہوئی تھی۔ اس دوران اس تنظیم کے درجنوں کارکنوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ 160 ملین کی آبادی والے بنگلہ دیش میں گزشتہ برسوں کے دوران عسکریت پسندی میں شدید اضافہ ہوا ہے اور متعدد آزاد خیال بلاگرز، دانشوروں، مذہبی اقلیتوں کے ارکان اور غیر ملکی امدادی کارکنوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ 2005ء میں جماعت المجاہدین بنگلہ دیش کی جانب سے دارالحکومت ڈھاکا سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں کیے جانے والے سلسلہ وار بم دھماکوں میں پچیس افراد ہلاک اور کئی سو زخمی ہوئے تھے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں