بنگلہ دیش کا نیا طویل ترین پل عوام کے لیے کھول دیا گیا
26 جون 2022
بنگلہ دیش میں آٹھ سال کے عرصے میں دریائے پدما پر تعمیر کردہ نیا طویل ترین پل باقاعدہ افتتاح کے ایک روز بعد اتوار چھبیس جون کو عوامی آمد و رفت کے لیے کھول دیا گیا۔ اس پل کی لمبائی ساڑھے چھ کلومیٹر سے بھی زیادہ بنتی ہے۔
اشتہار
اس پل کا افتتاح ملکی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے کل ہفتہ پچیس جون کے روز کیا تھا، جس کے بعد آج اتوار سے اسے عام شہریوں کے لیے کھول دیا گیا۔ یہ 6.51 کلومیٹر (4.04 میل) طویل پل تقریباﹰ 3.6 بلین امریکی ڈالر کے برابر لاگت سے تعمیر کیا گیا۔
اس عظیم الجثہ تعمیراتی منصوبے پر کام کے دوران حکومت کو سیاسی اپوزیشن کی طرف سے شدید تنقید اور کرپشن کے الزامات سمیت کئی طرح کے مسائل کا سامنا رہا۔ اس منصوبے میں کینیڈا کی ایک تعمیراتی کمپنی بھی شامل تھی اور پروجیکٹ پر پیش رفت کے دوران رشوت اور بدعنوانی کے الزامات اور دیگر اسکینڈلز کے باعث عالمی بینک سمیت کئی بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے اس پل کی تعمیر کے لیے رقوم فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ابتدائی منصوبہ بندی کے مطابق ورلڈ بینک کو اس منصوبے کے لیے 1.2 بلین ڈالر مہیا کرنا تھے۔
ڈھاکہ کا مونگلہ سے تیز ترین رابطہ
بیرونی فنڈنگ سے انکار کے بعد ڈھاکہ حکومت کو اربوں ڈالر مالیت کا یہ منصوبہ ملکی مالی وسائل سے ہی مکمل کرنا پڑا۔ اس پل کی تعمیر اور اس کے استعمال میں آ جانے سے دارالحکومت ڈھاکہ اور ملک کی دوسری سب سے بڑی سمندری بندرگاہ مونگلہ کے مابین فاصلہ تقریباﹰ 100 کلومیٹر (62 میل) کم ہو گیا ہے۔
ڈھاکہ سے جنوب مغرب کی طرف تقریباﹰ 30 کلومیٹر دور مقام ماوا میں منعقد ہونے والی ایک سرکاری تقریب میں اس پل کے افتتاح کے موقع پر اپنے خطاب میں ملکی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے کہا، ''یہ پل بنگلہ دیشی عوام کا ہے، انہی کے لیے ہے اور یہ ہمارے جذبوں، تخیل، تخلیق، ہمت اور حوصلے کا عملی ثبوت بھی ہے۔‘‘
اشتہار
پل چینی کمپنی نے تعمیر کیا
بنگلہ دیش بنیادی ڈھانچے کی ترقی سے متعلق چین کے بیلٹ اینڈ روڈ نامی پروجیکٹ کا براہ راست حصہ تو نہیں ہے، تاہم اس پل کی تعمیر چین کی وجہ سے ہی ممکن ہوئی۔ اس پل کو چینی ادارے چائنہ میجر برج انجینیئرنگ کمپنی نے تعمیر کیا۔
پل کے افتتاح کے موقع پر بنگلہ دیش میں چینی سفیر لی جی مِنگ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ اس پل کی تعمیر اور اس کا بنگلہ دیشی عوام کے استعمال میں آنا چینی بنگلہ دیشی تعاون کی تاریخ میں ایک بڑا سنگ میل ہے۔
پدما برج کی ملکی اقتصادی ترقی میں اہمیت
ماہرین اقتصادیات کو امید ہے کہ دریائے پدما پر تعمیر کیے گئے اس پل کی وجہ سے بنگلہ دیش کی مجموعی قومی پیداوار میں سالانہ 1.3 فیصد کا اضافہ ہو سکے گا۔
ملکی حکام کے مطابق یہ پل اتنا اہم ہے کہ اس نے ملک کے جنوبی اور جنوب مغربی علاقوں کے کم از کم 21 اضلاع کو آپس میں جوڑ دیا ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق بنگلہ دیش کی معیشت کا موجودہ حجم 465 بلین ڈالر کے برابر بنتا ہے۔ رواں مالی سال کے دوران ملکی معیشت میں 6.9 فیصد کی شرح سے ترقی کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
اس کے بعد اگلے مالی سال 2022ء اور 2023ء میں اقتصادی ترقی کی یہی شرح مزید اضافے کے بعد 7.1 فیصد ہو جانے کی توقع ہے۔
پُل اکثر طاقت اور اثر و رسوخ کا مظہر ہوتے ہیں۔ کئی پلوں پر بازار بھی بنائے گئے ہوتے ہیں، کچھ اپنی تاریخ تو کچھ دلچسپ طرز تعمیر کے باعث دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے یورپ کے انتہائی خوبصورت پُل۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Grubitzsch
پونٹے ویکیو، فلورینس
کسی چھتے ہوئے بازار کی مانند دکھائی دینے والے فلورینیس کے اس پل کی تعمیر 1345ء میں مکمل ہوئی تھی۔ ابتدائی طور پر یہاں قصائی اور کھال فروش کاروبار کرتے تھے۔ وہ بدبو دار باقیات کو دریا میں پھینک دیتے تھے۔ 1565ء میں ان کی جگہ یہاں سونا اور چاندی فروخت کرنے والوں نے لے لی۔ اب بھی یہاں زیور ات اور فن کے نمونے بھی فروخت کیے جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/M. Nitzschke
ریالٹو پل، وینس
وینس کا ریالٹو پل سان پولو اور سان مارکو کے علاقوں کو آپس میں ملاتا ہے۔ پُل کو شاہ بلوط کے بارہ ہزار ستونوں کی مدد سے سہارا دیا گیا تھا۔ بعد ازاں اس پل کے ارد گرد کاروباری ادارے اور بینک کھلنا شروع ہو گئے۔ یہاں کشتیاں لنگر انداز ہوتی تھیں اور اسی پُل پر اشیا تجارت کی خرید و فروخت کی جاتی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Grubitzsch
چارلس پل، پراگ
چیک جمہوریہ کے دارالحکوت پراگ میں چارلس پُل درائے ولٹاوا پر بنایا گیا ہے۔ اس پر کئی مذہبی شخصیات کے مجسمے نصب ہیں۔ سب سے مشہور مجسمہ سینٹ جان آف نیپومُک کا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آف نیپومُک کو اسی پُل سے دریا میں پھینک دیا گیا تھا اور وہ یہیں ڈوب کر ہلاک ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/K. Kozlowski
لوسرن کا چیپل پل
کسی وقت سوئس شہر لوسرن کا یہ پُل ایک فصیل کا کام بھی دیتا تھا لیکن اب یہ ایک اہم سیاحتی مرکز بن چکا ہے۔ 1332ء میں تعمیر کیے گئے اس پل کو یورپ میں لکڑی سے چھتا ہوا سب سے قدیم پل کہا جاتا ہے۔ سن 1993 میں ممکنہ طور پر کسی ان بجھے سگریٹ کے باعث آگ لگ جانے سے اس پُل کا کافی حصہ تباہ ہو گیا تھا، تاہم ایک برس بعد ہی مرمت مکمل کر کے اسے کھول دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/ Bildagentur/Schöning
ہائیڈل برگ کا قدیم پل
ہائیڈل برگ کو جرمنی کا ’رومانوی شہر‘ تصور کیا جاتا ہے اور اس شناخت میں یہ پُل بھی اہم کردار کرتا ہے۔ لکڑی سے بنا گیا پرانا پُل سیلابوں اور جنگوں کے باعث کئی مرتبہ تباہ ہوا لیکن اٹھارہویں صدی میں اس کی پتھر سے تعمیر نو کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/W. Dieterich
اوبر باؤم پل، برلن
اسے برلن کا سب سے دلکش پل تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے قریب بے تحاشہ کلب اور ڈِسکو واقع ہیں۔ ہر کچھ منٹوں کے بعد اس پل پر برلن کی سب سے پرانی میٹرو ٹرین گزرتی ہے۔ یہ پل برلن کے کروئزبرگ اور فریڈریشسہائن کے علاقوں کو جوڑتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Arco Images/Schoening
پونیف، پیرس
فرانسیسی زبان میں ’پونیف ‘ کا مطلب ’نیا پُل‘ ہے لیکن یہ دراصل دریائے سین پر تعمیر ہونے والا سب سے پرانا پُل ہے۔ اس کی تعمیر 1607ء میں مکمل ہوئی تھی۔ اس وقت اکثر پلوں پر گھر تعمیر کیے جاتے تھے لیکن اس پل پر ایسا نہیں کیا گیا۔ اس لیے اس پُل پر لوگ دریا اور آس پاس کے نظاروں کو دیکھنے آ جاتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Ol. Boitet
لندن کا ’ٹاور برج‘
دنیا بھر میں مقبول اس پل کو ’ٹاور برج‘ کا نام اس کے دو ٹاورز اور لندن ٹاور کے قریب ہونے باعث دیا گیا۔ روزانہ چالیس ہزار گاڑیاں اس پل سے گزرتی ہیں۔ اس پل کے نیچے سے کشتیاں بھی گزرتی ہیں۔ اور اگر کشتیوں کے لیے جگہ کم ہو تو پل کے درمیانی حصوں کو اوپر کیا جاسکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/V. Flores
گلینفینن ویاڈکٹ، سکاٹ لینڈ
سکاٹ لینڈ کے اس حسین اور رومانوی علاقے میں تعمیر کردہ اس پل کو فلم ہیری پوٹر کے باعث زیادہ شہرت ملی۔ اس پل پر بھاپ سے چلنے والی ٹرین گزرتی ہے۔ 390 میٹر طویل اس پل میں اکیس محراب ہیں۔
تصویر: picture-alliance/P. Giovannini
ایڈنبرا کے ’تین پل‘
یہ تین پل ایڈنبرا کو فیفے سے ملاتے ہیں۔ 1890ء میں تعمیر کردہ سرخ ’فورتھ ریل برج‘ یونیسیکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں بھی شامل ہے۔ اس کے ساتھ 1964ء میں ایک سسپینشن پل تعمیر کیا گیا اور 2017ء میں کوئنز فیری پل کی تعمیر بھی مکمل ہوئی۔ ش ح/ ا ا
تصویر: picture-alliance/A. Milligan
10 تصاویر1 | 10
تعمیراتی گہرائی کا نیا عالمی ریکارڈ
ماہرین تعمیرات کے مطابق اس پل کی تعمیر ایک بہت بڑا چیلنج تھا، جس کی کامیاب تکمیل کو چار ہزار سے زائد انجینیئروں نے اپنی مسلسل محنت سے ممکن بنایا۔ یہ پل مجموعی طور پر 41 ستونوں پر کھڑا کیا گیا ہے۔
ان میں سے ہر ستون کی تعمیر پانی کے نیچے 122 میٹر (400 فٹ) کی گہرائی سے شروع کی گئی تھی۔ یوں کسی بہت طویل پل کی تعمیر کے لیے پانی کے نیچے اتنی گہرائی تک جانے والے ستونوں کے لحاظ سے یہ ایک نیا عالمی ریکارڈ ہے۔
چند مقامات پر تو اس پل کے نیچے سے اتنا زیادہ پانی گزرتا ہے کہ اس کا حجم دریائے ایمیزون سے گزرنے والے پانی کے بعد عالمی سطح پر دوسرا سب سے زیادہ آبی حجم بنتا ہے۔
م م / ک م (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)
بنگلہ دیش کا ڈوبتا جزیرہ
سطح سمندرمیں اضافے کی وجہ سے بنگلہ دیشی جزیرے اشار چَور کے باسی علاقہ چھوڑ کر دیگر علاقوں کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں نے اس جزیرے کے حجم میں کمی اور یہاں مقیم افراد کی زندگیاں شدید طور پر متاثر کی ہیں۔
تصویر: DW/K.Hasan
پیچھے کیا چھوڑا؟
سن 2007 میں آنے والا سمندری طوفان ایک بڑی تباہی ثابت ہوا تھا۔ ریڈ کراس کے مطابق اس طوفان کی وجہ سے نو لاکھ گھرانے یعنی تقریباﹰ سات ملین افراد متاثر ہوئے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ طوفان سے ہلاک ہونے والوں میں سے چالیس فیصد بچے تھے۔
تصویر: DW/K.Hasan
خطرے کا علاقہ
اشار چَور خلیج بنگال میں واقعہ ایک جزیرہ ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے، جو مسلسل سمندری طوفانوں جیسی قدرتی آفات کی زد پر رہتا ہے۔
تصویر: DW/K.Hasan
پانی سے خشکی کی طرف منتقل ہوتا کام
خشک مچھلی کا کاروبار کرنے والے مچھیرے یہاں کام کا آغاز علی الصبح کر دیتے ہیں۔ اشار چَور سے ہر کشتی 15 تا 20 دن کے لیے مچھلیاں پکڑنے کے لیے روانہ ہوتی ہے۔ جب یہ لوگ واپس لوٹتے ہیں، تو اس سے بھی زیادہ کام ان کا منتظر ہوتا ہے۔ انہیں مچھلیاں خشک کر کے فروخت کے لیے تیار کرنا ہوتی ہیں۔
تصویر: DW/K.Hasan
ضرورت کے قیدی
چھ سالہ دانش ہر روز مچھلیاں پکڑتا ہے۔ کام انتہائی مشکل ہے اور وہ انتہائی کم عمر مگر قسمت اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ کام کرے۔ بچوں کی مشقت پر پابندی ہے، تاہم یہاں بچے کام کرتے نظر آتے ہیں۔ بچے عموماﹰ 56 سینٹ روزانہ کے اعتبار سے کما پاتے ہیں۔
تصویر: DW/K.Hasan
ایک سا کام لیکن اجرت مختلف
اشار چَور میں خواتین مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ تاہم دنیا کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں انہیں انتہائی کم اجرت ادا کی جاتی ہے۔
تصویر: DW/K.Hasan
غیر محفوظ زندگی
52 سالہ کریم علی کئی برسوں سے یہاں کام میں مصروف ہیں، تاہم قدرتی آفات اور اغوا جیسے واقعات کی وجہ سے لوگ بیگار پر مجبور ہیں۔ ’ایک بار میرا ایک ساتھی اغوا ہوا، پھر اس کا کبھی سراغ نہیں ملا۔ ہماری زندگی کی کوئی ضمانت نہیں۔‘
تصویر: DW/K.Hasan
جگہ کی ضرورت
یہاں آمدنی کا دار و مدار صرف اور صرف خشک مچھلی پر ہے۔ اشار چَور کی زمین کا زیادہ تر حصہ مچھلیاں خشک کرنے کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے۔ پکڑی گئی مچھلیوں کو تازہ رکھنے کے لیے یہاں بنائے گئے تالابوں میں پھینک دیا جاتا ہے اور پھر اُنہیں خشک کرنے کے لیے چھ روز تک کے لیے باہر کھلے آسمان کے نیچے رکھا جاتا ہے۔
تصویر: DW/K.Hasan
بہترین دوست ہی بدترین دشمن
اس جزیرے کے لوگوں کی بقا کا تمام تر دار و مدار سمندر پر ہے، کیوں کہ زیادہ تر افراد مچھلی کے کاروبار سے اپنی زندگی کی گاڑی چلا رہے ہیں۔ مگر سمندر ہی نے طوفانوں اور سیلابوں کے ذریعے ان افراد کی زندگیاں تباہ بھی کی ہیں۔
تصویر: DW/K.Hasan
غائب ہوتی زمین
اس جزیرے کا کچھ نہ کچھ حصہ ہر روز سیلاب کی وجہ سے زیرِ آب رہتا ہے۔ پانی سمندر سے ابھر کر راستے کی رکاوٹوں کو توڑتا ہوا، خشک زمین پر واقع مچھلیوں کے فارمز اور زرعی زمین کو برباد کر دیتا ہے۔
تصویر: DW/K.Hasan
غیرموجود بیرونی امداد
خشک مچھلی کا سخت کاروبار کرنے والی محنت کش کمیونٹی ایک مشکل زندگی گزار رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے انہیں طوفانوں سے تحفظ دینے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جا رہے جب کہ یہاں نکاسیء آب کا بھی کوئی انتظام نہیں ہے۔ یہاں کے رہائشی جھگی نما گھروں میں رہتے ہیں۔