وسطی بنگلہ دیش میں پیر کے روز دو کشتیوں میں ٹکر ہو جانے کی وجہ سے کم از کم چھبیس افراد ہلاک ہو گئے۔
تصویر: Reuters/D. Sagolj
اشتہار
بنگلہ دیش میں شب چر قصبے کے نزدیک پدماندی میں تقریباً تیس مسافروں سے کھچا کھچ بھری ایک کشتی ریت لے جانے والی ایک دوسری کشتی سے ٹکرا گئی جس میں کم از کم چھبیس لوگ ڈوب گئے۔
شب چر کے مقامی پولیس سربراہ معراج حسین نے خبر رساں اے ایف پی کو بتایا کہ حادثے میں پانچ افراد کو بچا لیا گیا ہے جب کہ چھبیس لاشیں بھی مل گئی ہیں۔
ایک دیگر پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ مزید افراد لاپتہ بتائے جاتے ہیں اور فائر سروس کے اہلکار اور مقامی افراد بچاؤ کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
ایک اعلی سرکاری عہدیدار رحیمہ خاتون نے بتایا کہ کشتی پر اتنی زیادہ تعداد میں لوگ سوار تھے اور یہ کورونا وائرس کے سبب نافذ کیے گئے ملک گیر لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اس طرح کا حادثہ عام بات ہے
بنگلہ دیش سینکڑوں ندیوں کا شہر ہے اور وہاں ندیوں میں کشتیوں کے غرقاب ہونے کے حادثات عام سی بات ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کشتی کی دیکھ بھال ٹھیک انداز میں نہیں کی جاتی، حفاظتی معیارات کا خیال نہیں رکھا جاتا اور کشتیاں اکثر گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی ہوتی ہیں، اور اسی وجہ سے اس طرح کے حادثات ہوتے ہیں۔ریت لے جانے والی کشتیاں پانی میں کافی اندر تک ڈوبی رہتی ہیں اور بالخصوص کم روشنی میں دکھائی نہیں دیتی ہیں۔
اپریل کے اوائل میں بھی وسطی شہر نارائن گنج ندی میں ایک کشتی اور بڑے کارگو جہاز میں ٹکر ہو نے سے کم از کم تیس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ لوگ کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن کا اعلان ہونے کے بعد افراتفری میں اپنے گھر جارہے تھے اور کشتی پر گنجائش سے زیادہ تقریبا ً پچاس افراد سوار تھے۔
گزشتہ برس جون میں ایک کشتی ڈھاکہ کے قریب ندی میں اس وقت ڈوب گئی تھی جب ایک دوسری کشتی نے پیچھے سے اسے ٹکر مار دی تھی۔ اس حادثے میں کم از کم 32 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
فروری سن 2015 میں بھی ایک کشتی اور کارگو جہاز میں ٹکر ہو جانے سے کم از کم 78افراد کی موت ہو گئی تھی۔
ج ا/ (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)
بنگلہ دیش کا ڈوبتا جزیرہ
سطح سمندرمیں اضافے کی وجہ سے بنگلہ دیشی جزیرے اشار چَور کے باسی علاقہ چھوڑ کر دیگر علاقوں کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں نے اس جزیرے کے حجم میں کمی اور یہاں مقیم افراد کی زندگیاں شدید طور پر متاثر کی ہیں۔
تصویر: DW/K.Hasan
پیچھے کیا چھوڑا؟
سن 2007 میں آنے والا سمندری طوفان ایک بڑی تباہی ثابت ہوا تھا۔ ریڈ کراس کے مطابق اس طوفان کی وجہ سے نو لاکھ گھرانے یعنی تقریباﹰ سات ملین افراد متاثر ہوئے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ طوفان سے ہلاک ہونے والوں میں سے چالیس فیصد بچے تھے۔
تصویر: DW/K.Hasan
خطرے کا علاقہ
اشار چَور خلیج بنگال میں واقعہ ایک جزیرہ ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے، جو مسلسل سمندری طوفانوں جیسی قدرتی آفات کی زد پر رہتا ہے۔
تصویر: DW/K.Hasan
پانی سے خشکی کی طرف منتقل ہوتا کام
خشک مچھلی کا کاروبار کرنے والے مچھیرے یہاں کام کا آغاز علی الصبح کر دیتے ہیں۔ اشار چَور سے ہر کشتی 15 تا 20 دن کے لیے مچھلیاں پکڑنے کے لیے روانہ ہوتی ہے۔ جب یہ لوگ واپس لوٹتے ہیں، تو اس سے بھی زیادہ کام ان کا منتظر ہوتا ہے۔ انہیں مچھلیاں خشک کر کے فروخت کے لیے تیار کرنا ہوتی ہیں۔
تصویر: DW/K.Hasan
ضرورت کے قیدی
چھ سالہ دانش ہر روز مچھلیاں پکڑتا ہے۔ کام انتہائی مشکل ہے اور وہ انتہائی کم عمر مگر قسمت اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ کام کرے۔ بچوں کی مشقت پر پابندی ہے، تاہم یہاں بچے کام کرتے نظر آتے ہیں۔ بچے عموماﹰ 56 سینٹ روزانہ کے اعتبار سے کما پاتے ہیں۔
تصویر: DW/K.Hasan
ایک سا کام لیکن اجرت مختلف
اشار چَور میں خواتین مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ تاہم دنیا کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں انہیں انتہائی کم اجرت ادا کی جاتی ہے۔
تصویر: DW/K.Hasan
غیر محفوظ زندگی
52 سالہ کریم علی کئی برسوں سے یہاں کام میں مصروف ہیں، تاہم قدرتی آفات اور اغوا جیسے واقعات کی وجہ سے لوگ بیگار پر مجبور ہیں۔ ’ایک بار میرا ایک ساتھی اغوا ہوا، پھر اس کا کبھی سراغ نہیں ملا۔ ہماری زندگی کی کوئی ضمانت نہیں۔‘
تصویر: DW/K.Hasan
جگہ کی ضرورت
یہاں آمدنی کا دار و مدار صرف اور صرف خشک مچھلی پر ہے۔ اشار چَور کی زمین کا زیادہ تر حصہ مچھلیاں خشک کرنے کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے۔ پکڑی گئی مچھلیوں کو تازہ رکھنے کے لیے یہاں بنائے گئے تالابوں میں پھینک دیا جاتا ہے اور پھر اُنہیں خشک کرنے کے لیے چھ روز تک کے لیے باہر کھلے آسمان کے نیچے رکھا جاتا ہے۔
تصویر: DW/K.Hasan
بہترین دوست ہی بدترین دشمن
اس جزیرے کے لوگوں کی بقا کا تمام تر دار و مدار سمندر پر ہے، کیوں کہ زیادہ تر افراد مچھلی کے کاروبار سے اپنی زندگی کی گاڑی چلا رہے ہیں۔ مگر سمندر ہی نے طوفانوں اور سیلابوں کے ذریعے ان افراد کی زندگیاں تباہ بھی کی ہیں۔
تصویر: DW/K.Hasan
غائب ہوتی زمین
اس جزیرے کا کچھ نہ کچھ حصہ ہر روز سیلاب کی وجہ سے زیرِ آب رہتا ہے۔ پانی سمندر سے ابھر کر راستے کی رکاوٹوں کو توڑتا ہوا، خشک زمین پر واقع مچھلیوں کے فارمز اور زرعی زمین کو برباد کر دیتا ہے۔
تصویر: DW/K.Hasan
غیرموجود بیرونی امداد
خشک مچھلی کا سخت کاروبار کرنے والی محنت کش کمیونٹی ایک مشکل زندگی گزار رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے انہیں طوفانوں سے تحفظ دینے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جا رہے جب کہ یہاں نکاسیء آب کا بھی کوئی انتظام نہیں ہے۔ یہاں کے رہائشی جھگی نما گھروں میں رہتے ہیں۔