بنگلہ دیش کو مسلم سے لادین ریاست بنانے کے مطالبے کی مخالفت
25 مارچ 2016دارالحکومت ڈھاکا سے جمعہ پچیس مارچ کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق آج نماز جمعہ کے بعد ملک کے مختلف شہروں اور قصبوں میں ہزاروں مسلمانوں نے احتجاجی مظاہرے کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ بنگلہ دیش میں ریاستی مذہب اسلام ہی رہنا چاہیے۔
اس احتجاج کی وجہ یہ ہے کہ ملک کی ایک اعلیٰ عدالت اتوار ستائیس مارچ کے روز ایک ایسی درخواست کی باقاعدہ سماعت شروع کرنے والی ہے، جس میں سیکولر سوچ کے حامل سیاسی اور سماجی حلقوں کی نمائندگی کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسلام کو بنگلہ دیش کا ریاستی مذہب نہیں رہنا چاہیے اور اس کی یہ حیثیت منسوخ کی جائے۔
عشروں پہلے مشرقی پاکستان کہلانے والے اور 1971ء میں ایک خود مختار ریاست کی حیثیت اختیار کرنے والے بنگلہ دیش میں مذہب کے طور پر اسلام کی ریاستی حیثیت کافی عرصے سے زیر بحث چلی آ رہی ہے۔ قریب تین عشرے قبل بنگلہ دیشی آئین میں جو ترامیم کی گئی تھیں، ان کے نتیجے میں ایک غیر معمولی اور ’ملی جلی صورت حال‘ سامنے آئی تھی۔
تب سے لے کر آج تک یہ ملک باضابطہ طور پر تو سیکولر ہے لیکن ساتھ ہی مسلم اکثریتی آبادی کی وجہ سے اسلام کی ریاستی مذہب کے طور پر حیثیت بھی برقرار رکھی گئی ہے۔ بنگلہ دیش کی آبادی میں 90 فیصد سے زائد مسلمان ہیں اور بڑی مذہبی اقلیتوں میں ہندو اور بدھ مت کے پیروکار شمار ہوتے ہیں۔
اسی مہینے کے شروع میں ایک اعلیٰ عدالت نے سیکولر حلقوں کی وہ درخواست باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کر لی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ بنگلہ دیش کا چارٹر تو سیکولر ہے لیکن اسلام کی ریاستی مذہب کے طور پر حیثیت نہ صرف ملک کے اس لادین چارٹر سے متصادم ہے بلکہ وہ غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی وجہ بھی بنتی ہے۔
اس سماجی طرز فکر کی مخالفت کرتے ہوئے آج کے احتجاجی مظاہروں میں شریک مسلمان شہریوں نے نہ صرف وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے خلاف نعرے بازی کی بلکہ انہوں نے ایسے بینر بھی اٹھا رکھے تھے، جن پر اس موضوع پر عدالتی سماعت کی مخالفت کی گئی تھی۔
اے ایف پی کے مطابق صرف ڈھاکا میں کیے گئے احتجاجی مظاہرے میں سات ہزار کے قریب اسلام پسند بنگلہ دیشی شریک ہوئے، جنہوں نے شہر کی سڑکوں پر مارچ بھی کیا۔
اس موضوع پر بنگلہ دیش میں چند مذہبی گروپ بھی وجود میں آ چکے ہیں۔ ان میں سے ایک گروپ ’حفاظتِ اسلام‘ سے تعلق رکھنے والے مظاہرین بار بار یہ نعرے لگا رہے تھے کہ وہ ’ہر حال میں اپنے مذہب کی حفاظت کریں گے، چاہے اس کے لیے خون ہی کیوں نہ بہانا پڑے‘۔
یہ مظاہرے ڈھاکا کے علاوہ کئی دوسرے بڑے شہروں میں بھی کیے گئے، جن میں سلہٹ اور باریسال بھی شامل تھے۔ ان مظاہروں کے دوران ’حفاظتِ اسلام‘ کے مرکزی رہنماؤں نے یہ دھمکیاں بھی دیں کہ اگر عدالت نے اسلام کی ریاستی مذہب کے طور پر حیثیت کے خلاف فیصلہ دیا تو اس کا نتیجہ پرتشدد واقعات اور خونریزی کی شکل میں بھی نکل سکتا ہے۔
ڈھاکا میں مظاہرے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے نور حسین قاسمی نامی ایک اسلام پسند رہنما نے کہا، ’’اگر اسلام کو سرکاری مذہب نہ رکھا گیا تو ہم ایک ایسی بھرپور تحریک شروع کریں گے، جس دوران اپنا خون بہانے سے بھی گریز نہیں کیا جائے گا۔‘‘
ڈھاکا میں یہ احتجاجی مظاہرہ بیت المکرم نامی قومی مسجد کے باہر جمعے کی نماز کے بعد کیا گیا۔ مظاہرے میں شریک ہزاروں مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے ’حفاظتِ اسلام‘ کے ایک لیڈر نور حسین قاسمی نے یہ بھی کہا، ’’دنیا کے 60 ملک ایسے ہیں جن کا کوئی نہ کوئی ریاستی مذہب بھی ہے۔ تو پھر یہ بات کوئی مسئلہ کیوں ہے کہ ہمارا بھی ایک ریاستی مذہب ہونا چاہیے؟‘‘
بنگلہ دیش میں اسلام کو ریاستی مذہب بنانے کا فیصلہ 1988ء میں اس دور کے فوجی حکمرانوں نے کیا تھا، جس کا ایک مقصد اس جنوبی ایشیائی ملک میں اقتدار پر اپنی گرفت کو مضبوط بنانا بھی تھا۔
بنگلہ دیش ابھی تک ایک قدامت پرست معاشرہ ہے، جہاں حالیہ برسوں کے دوران سیکولر بلاگرز کے قتل کے کئی واقعات بھی پیش آ چکے ہیں اور ساتھ ہی مذہبی اقلیتیں بھی خود کو قدرے غیر محفوظ سمجھنے لگی ہیں۔
دوسری طرف وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت سیکولرازم کو ملکی آئین کے ایک ستون کے طور پر دوبارہ معاشرے کے مرکزی دھارے میں لا تو چکی ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ وہ ملک میں کوئی ایسی نئی قانون سازی نہیں کریں گی، جو مذہب کی بنیادی تعلیمات کے منافی ہو۔