بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا کی رہائی کا فیصلہ
25 مارچ 2020
بنگلہ دیش کی حکومت نے سابق وزیر اعظم اور اپوزیشن رہنما خالدہ ضیاء کو مسلسل گرتی ہوئی صحت کے مدنظرجیل سے رہا کرنے اوران کا علاج کرانے کا اعلان کیا ہے۔
اشتہار
بنگلہ دیش حکومت کے ایک ترجمان کے مطابق حزب اختلاف کی رہنما خالدہ ضیاء کو انسانی بنیادوں پر چھ ماہ کے لیے رہا کیا جائے گا تاکہ وہ اپنی مسلسل گرتی ہوئی صحت کا علاج کرا سکیں، تاہم رہائی کا نوٹیفیکیشن ابھی جاری نہیں کیا گیا ہے۔
چوہترسالہ خالدہ ضیا بنگلہ دیش کی دو مرتبہ وزیر اعظم رہ چکی ہیں اور سن 2018 سے جیل میں قید ہیں۔ انہیں بدعنوانی کے بعض کیسز کے سلسلے میں سترہ برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ لیکن ان کی سیاسی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کا کہنا ہے کہ خالدہ ضیاء کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات سیاسی محرکات کے سبب بنائے گئے تھے۔ ان دنوں وہ جوڑوں کے درد کی بیماری میں مبتلا ہیں اور کچھ دنوں سے ان کی حالت کافی خراب ہے۔
بنگلہ دیش کے وزیر قانون انصاف انیس الحق نے خالدہ ضیاء کی رہائی کے حوالے سے بتایا کہ سابق وزیر اعظم کو وزیر اعظم شیخ حسینہ کی ہدایت پر رہا کیا جارہا ہے لیکن ان کی رہائی اس کے شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ وہ ڈھاکہ میں اپنی رہائش گاہ پر ہی مقیم رہیں گی اور انہیں ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ وہ اپنا علاج ملک کے کسی بھی ہسپتال میں کروا سکتی ہیں لیکن رہائی کی اس مدت کے دوران انہیں بیرون ملک سفر کرنے کی اجازت ہرگز نہیں ہوگی۔
خالدہ ضیاء کے اہل خانہ نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی کہ انہیں علاج کے لیے لندن جانے کی اجازت دی جائے۔ خالدہ ضیاء کے بھائی شمیم سکندر نے حکومت کے فیصلے کا خیر مقدم اور حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا،’’ہمیں اس فیصلے سے بہت خوشی ہے۔‘‘
خالدہ ضیا کے رہائی سے متعلق وزارت داخلہ ایک نوٹیفیکیشن جارے کرے گا تب وہ جیل سے باہر آسکیں گی تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ انہیں جیل سے کب رہا کیا جائے گا۔
ان کی جماعت بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) نے رہائی کی کوئی اپیل نہیں کی تھی۔ پارٹی کے رہنما امیر خسرو محمد چودھری کا کہنا تھا، ’’خالدہ ضیا ء کو ان کے اہل خانہ کی جانب سے عدالت میں ایک اپیل کے بعد رہا کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بی این پی نے ان کی رہائی کے لیے کوئی درخواست نہیں دی تھی۔ لیکن پھر بھی ہم اسے مثبت انداز میں لے رہے ہیں۔ انہیں تو بہت پہلے ہی رہا کر دیا جانا چاہیے تھا کیونکہ وہ سیاسی وجوہات کی بنا پر جیل میں ہیں، انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا ہے۔‘‘
خالدہ ضیا کو سن 2018 میں پہلی بار ایک عدالت نے بدعنوانی کے ایک کیس میں قصوروار قرار دیا تھا۔ ان پر اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے تقریباﹰ ڈھائی لاکھ ڈالر کی رقم، جو ایک یتیم خانے کے لیے بطور عطیہ دی گئی تھی، غبن کرنے کا الزام ہے۔ اس کے بعد اسی نوعیت کے بد عنوانی کے ایک دیگر کیس میں بھی انہیں قصوروار قرار دیا گیا تھا۔
وزیر اعظم شیخ حسینہ اور خالدہ ضیا کا تعلق ملک کے دو بڑے سیاسی خاندانوں سے ہے اور سن 1971میں ملک کے وجود میں آنے کے بعد سے یہی دونوں خاندان بنگلہ دیش کی سیاست پر حاوی رہے ہیں۔ بطور وزیر اعظم شیخ حسینہ کی یہ تیسری مدت ہے جبکہ خالدہ ضیا سن 1991 سے سن 1996 تک اور پھر سن2001 سے سن 2006 تک وزیر اعظم تھیں۔
ص ز/ ج ا (ایجنسیاں)
عبدالقادر ملا کی پھانسی پر بنگلہ دیش میں ہنگامے
بنگلہ دیشی جماعت اسلامی کے رہنما عبدالقادر مُلا کو جمعرات کی شب دس بج کر ایک منٹ پر پھانسی دی گئی۔ وہ پہلے رہنما ہیں جنہیں 1971ء میں پاکستان سے علیحدگی کے لیے آزادی کی تحریک کے دوران کردار پر تختہ دار پر لٹکایا گیا ہے۔
تصویر: DW/M. Mamun
ملک بھر میں پُر تشدد مظاہرے
عبدالقادر مُلا کو پھانسی دیے جانے کے بعد بنگلہ دیش میں تشدد اور سیاسی افراتفری میں مزید شدت پیدا ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ مُلا کی پھانسی کے ردعمل میں ملک میں پر تشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
تصویر: DW/M. Mamun
پاکستان نواز ملیشیا کا سربراہ ہونے کا الزام
بنگلہ دیش میں قائم کیے جانے والے ایک خصوصی ٹریبونل نے رواں برس فروری میں جماعت اسلامی کے رہنما عبدالقادر مُلا کو پاکستان سے علیحدگی کی تحریک کے دوران ایک پاکستان نواز ملیشیا کا سربراہ ہونے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔ اس ملیشیا پر الزام تھا کہ اس نے بنگلہ دیش کے بعض نامور پروفیسروں، ڈاکٹروں، مصنفین اور صحافیوں کو قتل کیا تھا۔ انہیں عصمت دری، قتل اور قتل عام کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA
بے شمار گھر اور دوکانیں نذرِ آتش
مظاہرین نے کئی مقامات پر حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والوں کی املاک کو نذر آتش کیا ہے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق مظاہرین نے بنگلہ دیش کے مختلف حصوں میں حکومت کے سپورٹرز اور ہندو اقلیت کے گھروں اور دکانوں کو جلایا ہے۔
تصویر: DW/M. Mamun
مشتعل مظاہرین کے ہاتھوں ہلاکتیں
تشدد کے اس تازہ سلسلے میں جمعے کے دن چار افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی۔ مشتعل مظاہرین نے حکمران عوامی لیگ کے دو کارکنوں کو جنوب مغربی علاقے ستخیرہ میں تشدد کر کے ہلاک کر دیا۔ جنوبی ضلع نواکھلی میں جماعت اسلامی کے حامیوں کے ساتھ پولیس کی جھڑپ کے دوران ایک شخص ہلاک ہوا جبکہ مشتعل مظاہرین نے ایک ڈرائیور کو ہلاک کر دیا۔
تصویر: REUTERS
پھانسی کے حامی بنگلہ دیشی شہری
جہاں ایک طبقے کی جانب سے عبدالقادر ملا کی پھانسی پر شدید رد عمل دیکھنے میں آ رہا ہے، وہاں معاشرے کے کئی طبقات میں اس سزا پر اطمینان کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے۔ جمعرات بارہ دسمبر کی اس تصویر میں نظر آنے والے بنگلہ دیشی شہری سپریم کورٹ کی طرف سے ملا کی اپیل مسترد ہونے کے بعد نکالے جانے والے ایک جلوس میں اپنی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔
تصویر: Reuters
پھانسی جمعرات کی شب دی گئی
عبدالقادر مُلا کو منگل کے روز پھانسی دی جانا تھی، تاہم آخری لمحات میں سپریم کورٹ میں نظرثانی کی اپیل دائر کیے جانے کے بعد اس سزا پر عمل درآمد روک دیا گیا تھا۔ عبدالقادر ملا کی جانب سے اپنی سزا پر نظرثانی کے لیے سپریم کورٹ سے اپیل کی گئی تھی، جو مسترد ہو گئی۔ جمعرات کی شب پولیس کے سخت پہرے میں تین ایمبولینس گاڑیاں سڑکوں پر نکلیں، جن میں سے ایک میں غالباً عبدالقادر ملا کی میت تھی۔
تصویر: Reuters
پھانسی سے پہلے آخری ملاقات
عبدالقادر ملا کے قریبی عزیزوں نے جمعرات کے روز دن میں ڈھاکہ جیل میں اُن کے ساتھ آخری ملاقات کی۔ اُسی روز رات کو ملا کی سزائے موت پر عملدرآمد کر دیا گیا۔ بنگلہ دیش کی اپوزیشن پارٹی جماعت اسلامی نے عبدالقادر مُلا کی پھانسی کو ایک سیاسی قتل قرار دیا ہے۔ جماعت کی طرف سے اتوار کے روز عام ہڑتال کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters
مُلا سمیت پانچ رہنماؤں کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے
آزادی کے لیے لڑنے والوں کی بہبود کے لیے قائم ایک تنظیم سے وابستہ افراد اس سال جولائی میں جماعت اسلامی کے ایک رہنما علی احسن محمد مجاہد کو پھانسی کی سزا سنائے جانے پر نعرے لگا رہے ہیں۔ مُلا سمیت اب تک پانچ اپوزیشن اور مذہبی رہنماؤں کو متنازعہ انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کی طرف سے سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔ جنوری سے اب تک اس حوالے سے پھوٹنے والے فسادات کے نتیجے میں 230 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔