بنگلہ دیش کے بانی رہنما شیخ مجیب کے قاتل کو پھانسی دے دی گئی
12 اپریل 2020
بنگلہ دیش کے بانی رہنما شیخ مجیب الرحمان کے قاتل ایک سابق فوجی افسر کو اتوار بارہ اپریل کو علی الصبح پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ مجرم مبینہ طور پر بھارت میں روپوش رہا تھا، جسے گزشتہ ہفتے ہی گرفتار کیا گیا تھا۔
اشتہار
شیخ مجیب الرحمان کو 1975ء میں ایک فوجی بغاوت کے دوران قتل کر دیا گیا تھا۔ اس جنوبی ایشیائی ملک کے بانی رہنما کے قتل کا مجرم عبدالماجد ایک سابق فوجی افسر تھا، جسے آج اتوار بارہ اپریل کو صبح سویرے ڈھاکا کی مرکزی جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔
اسے سنائی گئی سزا پر عمل درآمد سے قبل مجرم کی جمعہ دس اپریل کو اس کی بیوی اور چار دیگر رشتہ داروں سے آخری مرتبہ ملاقات بھی کرا دی گئی تھی۔
اس آخری ملاقات سے قبل بنگلہ دیش کے صدر محمد عبدالحمید نے جمعرات نو اپریل کو مجرم عبدالماجد کی رحم کی اپیل بھی مسترد کر دی تھی۔
مجرم عبدالماجد کو منگل سات اپریل کے روز ملکی دارالحکومت ڈھاکا سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کی گرفتاری کو ملکی وزیر داخلہ اسدالزمان خان نے سال رواں کے دوران 'بنگلہ دیش کے لیے سب سے بڑے تحفے‘ کا نام دیا تھا۔ مجرم کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ برس ہا برس تک ہمسایہ ملک بھارت میں چھپا رہا تھا۔
کئی سابق فوجی افسروں کو سزائے موت کا حکم
عبدالماجد کو ملکی فوج کے تقریباﹰ ایک درجن دیگر سابق افسران کے ہمراہ 1998ء میں ملک کی ایک عدالت نے مجرم قرار دیتے ہوئے سزائے موت کا حکم سنایا تھا۔ پھر 2009ء میں بنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے بھی ان کے خلاف فیصلہ برقرار رکھا تھا۔ عبدالماجد کے ساتھی مجرموں میں سے پانچ کو ایک دہائی سے زیادہ عرصہ قبل سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کے چند ماہ بعد ہی سزائے موت دے دی گئی تھی۔
بنگلہ دیش کا ’ڈیتھ اسکواڈ‘ سوشل میڈیا کی جانچ پڑتال کرے گا
بنگلہ دیشی حکومت سوشل میڈیا کی جانچ پڑتال کی ذمہ داری پیراملٹری فورس کو تفویض کرنے کا سوچ رہی ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ حکومتی فیصلہ آزادئ رائے کے منافی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
داغ دار شہرت
ریپڈ ایکشن بٹالین (RAB) سن 2004 میں قائم کی گئی تھی تاکہ بنگلہ دیش میں فروغ پاتی اسلام پسندی کو قابو میں لایا جا سکے۔ اس فورس نے ابتداء میں چند جہادی عقائد کے دہشت گردوں کو ہلاک کیا یا پھر گرفتار کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس فورس کی شہرت بتدریج داغ دار ہوتی چلی گئی اور یہ خوف کی علامت بن کر رہ گئی۔ اسے موت کا دستہ یا ’ڈیتھ اسکواڈ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
فیس بک، یوٹیوب اور سکیورٹی
بنگلہ دیش کی حکومت فیس بک، یوٹیوب اور دیگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی نگرانی پر بارہ ملین یورو یا تقریباً چودہ ملین امریکی ڈالر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس منصوبے کے تحت ریپڈ ایکشن بٹالین ریاست مخالف پراپیگنڈے، افواہوں اور اشتعال انگیز مضامین یا بیانات کیا اشاعت کی نگرانی کرے گی۔ نگرانی کا یہ عمل انٹرنیٹ پر دستیاب کمیونیکشن کے تمام ذرائع پر کیا جائے گا۔
تصویر: imago/Future Image
ڈھاکا حکومت پر بین الاقوامی دباؤ کا مطالبہ
سویڈن میں مقیم بنگلہ دیشی صحافی تسنیم خلیل کا کہنا ہے کہ ریپڈ ایکشن بٹالین کو استعمل کرتے ہوئے ڈھاکا حکومت اپنے مخالفین کو گرفتار یا نظربند کرنے کا پہلے ہی سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ خلیل نے یورپی یونین اور ایسے دوسرے اداروں سے کہا ہے کہ وہ بنگلہ دیشی حکومت کو ایسا اقدام کرنے سے روکے جو عام شہریوں کی آزادی کو سلب کرنے کے مساوی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
آزادئ صحافت کو محدود کرنے کا نیا قانون
بنگلہ دیشی حکومت نے حال ہی میں ایک نیا قانون ’ دی ڈیجیٹل ایکٹ‘ متعارف کرایا ہے۔ اس قانون کے تحت انٹرنیٹ پر ریاست مخالف یا قانونی اختیار کو درہم برہم کرنے یا مذہبی جذبات کو مجروح کرنے یا نسلی ہم آہنگی کے منافی کوئی بھی بیان شائع کرنے کے جرم پر سات برس تک کی قید سزا سنائی جا سکتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ حکومتی ناقدین کو خاموش کرنے طور پر اس قانون کا استعمال کر سکتی ہے۔
تصویر: government's press department
ذرائع ابلاغ کا احتجاج
پیر پندرہ اکتوبر کو مسلم اکثریتی ملک بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں اہم اخبارات کے مدیران نے نیشنل پریس کلب کے باہر انسانی زنجیر بنائی۔ اس موقع پر مطالبہ کیا گیا کہ ’دی ڈیجیٹل ایکٹ‘ کی مختلف نو شقوں میں ترامیم کی جائیں کیونکہ یہ آزاد صحافت اور آزادئ رائے کے راستے کی رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ اس مظاہرے کے جواب میں کوئی حکومتی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
تصویر: bdnews24.com
صحافت بھی جاسوسی کا ذریعہ ہو سکتی ہے!
ایک سینیئر ایڈیٹر محفوظ الرحمان کا کہنا ہے کہ نئے قانون کے تحت اگر کوئی صحافی کسی حکومتی دفتر میں داخل ہو کر معلومات اکھٹی کرتا پایا گیا تو اُسے جاسوسی کے شبے میں چودہ سال تک کی سزائے قید سنائی جا سکتی ہے۔ محفوظ الرحمان کا مزید کہنا ہے کہ یہ نیا قانون سائبر کرائمز کے چیلنج کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ آزاد میڈیا کے گلے میں ہڈی کی طرح اٹک جائے گا۔
تصویر: bdnews24.com
ناروا سلوک
بنگلہ دیش آزاد صحافت کی عالمی درجہ بندی میں 180 ممالک میں 146 ویں پوزیشن پر ہے۔ ڈھاکا حکومت نے عالمی دباؤ کے باوجود انسانی حقوق کے سرگرم کارکن شاہد العالم کو پسِ زندان رکھا ہوا ہے۔ العالم نے رواں برس اگست میں طلبہ کے پرامن مظاہرے پر طاقت کے استعمال کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور وہ اسی باعث گرفتار کیے گئے۔ اس گرفتاری پر حکومتی ناقدین کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Uz Zaman
7 تصاویر1 | 7
آج سے تقریباﹰ پینتالیس سال پہلے فوج کی طرف سے اقتدار پر قبضے کی خونریز کوشش کے دوران شیخ مجیب الرحمان اور ان کے خاندان کے اکثر افراد مارے گئے تھے۔ ان کی بیٹی شیخ حسینہ البتہ اس حملے میں بچ گئی تھیں۔ وہ گزشتہ کئی برسوں سے ملک کی وزیر اعظم چلی آ رہی ہیں۔
قاتلوں کے لیے معافی کا متنازعہ قانون
شیخ مجیب الرحمان کے قتل کے بعد اقتدار میں آنے والی متعدد ملکی حکومتوں نے عبدالماجد کو کئی مختلف سفارتی عہدوں پر تعینات بھی کیا تھا۔ اس سلسلے میں شیخ مجیب کے قتل اور اقتدار پر قبضے کے بعد ڈھاکا میں بننے والی پہلی حکومت نے ایک ایسا قانون بھی منظور کر لیا تھا، جس کے تحت شیخ مجیب کے قاتلوں کو ان کے خلاف ممکنہ قانونی کارروائی سے تحفظ مل گیا تھا۔ یہ قانون 1996ء میں اس وقت منسوخ کر دیا گیا تھا، جب شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی شیخ حسینہ ملکی وزیر اعظم بنی تھیں۔
موجودہ بنگلہ دیش ماضی میں مشرقی پاکستان کہلاتا تھا، جس نے 1971ء میں نو ماہ تک جاری رہنے والی جدوجہد کے بعد متحدہ پاکستان میں سابقہ مغربی پاکستان سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے آزادی حاصل کی تھی۔ بنگلہ دیش کی آزادی کے لیڈر شیخ مجیب الرحمان ہی تھے، جو بعد میں اس نوآزاد ریاست کے بانی کہلائے۔
م م / ع ب (اے ایف پی، اے پی)
میانمار: روہنگیا مسلمانوں کی جگہ نئے لوگوں کی آبادکاری
میانمار میں فوجی کارروائیوں کے باعث لاکھوں روہنگیا اپنے دیہات چھوڑ کر پناہ کے لیے بنگلہ دیش کا رخ کرنے پر مجبور ہوئے۔ ان کے جانے کے بعد اب وہاں نئے لوگوں کو آباد کیا جا رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Uz Zaman
’ماڈل ولیج ‘کی تعمیر
وہ علاقے جہاں بحالی کا کام کیا جا رہا ہے، وہاں اب بدھ مت مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت ہے۔ اس علاقے کو ماڈل ولیج کی طرز پر بنایا جا رہا ہے۔ میانمار کی حکومت مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کی تردید کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اس علاقے کو خالی اس لیے کروایا گیا تاکہ یہاں نئی آبادکاریاں کی جائیں۔ اس کے تحت وہاں بہتر سڑکوں اور نئے گھروں کی تعمیر کی جا رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
نئے لوگوں کی آمد
ملک کے دیگر علاقوں سے یہاں آنے والوں رہائش کی اجازت ہے۔ تاہم یہاں آ کر بسنے والوں کی تعداد نہ صرف انتہائی کم ہے بلکہ اکثریت کا تعلق ملک کے جنوبی علاقوں سے آئے انتہائی غریب طبقے سے ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
عوام میں خوف
یہاں آکر بسنے والے لوگوں نے اس علاقے سے نئی زندگی کی کئی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں تاہم انہیں یہاں بحالی سے قبل رہنے والوں کی واپسی کا خوف بھی ہے۔ اب تک سات لاکھ روہنگیا ان علاقوں سے بنگلہ دیش ہجرت کر چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
غیر مسلم علاقہ
راکھین کی تعمیر نو کے لیے ایک ضمنی کمیٹی CRR بنائی گئی ہے۔ یہ ایک پرائیویٹ پلان ہے اور اس کمیٹی کے مقامی رہنما کے مطابق اس پلان کے تحت آباد کیے جانے والے علاقوں کو صرف غیر مسلموں کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
آبادکاری کے لیے فنڈنگ
راکھین کے پارلیمانی ممبر کے مطابق یہ علاقہ اب سے قبل صرف مسلمانوں کے زیر اثر تھا۔ لیکن اب ان کے جانے کے بعد یہاں دوسرے مذہب کے پیروکاروں کو جگہ دی جائے گی۔ یہاں نئے گھر بنانے اور لوگوں کو بسانے کے لیے راکھین کی تعمیر نو کے لیے قائم کردہ ضمنی کمیٹی فنڈ جمع کر رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
64 خاندانوں کی آبادکاری
اب تک راکھین کی تعمیر نو کے لیے قائم کردہ ضمنی کمیٹی CRR کی جانب سے 64 خاندانوں کے 250 افراد کو یہاں آباد ہونے کی اجازت دی گئی ہے۔ جبکہ دو سو افراد نے یہاں بسنے کی خواہش ظاہر کی ہے جن کے نام ابھی ویٹنگ لسٹ میں درج ہیں۔ ان افراد میں زیادہ تر روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والے مزدور اور انتہائی غربت میں زندگی بسر کرنے والے ہیں۔