1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش کے سیاسی حالات اور بھارت کو درپیش چیلنجز

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
7 اگست 2024

بھارت کے سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش میں تبدیل ہوتی سیاسی صورتحال سے سب سے بڑا نقصان بھارت کو ہو سکتا ہے، جس نے شیخ حسینہ کی حمایت میں سب کچھ داؤ پر لگا دیا، تاہم پھر بھی انہیں بچا نہ سکا۔

مودی شیخ حسینہ نئی دہلی میں
سیاسی تجزیہ کار موجودہ صورتحال کو بھارتی خارجہ پالیسی اور خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی بھی قرار دیتے ہیں، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں اقتدار کی تبدیلی سے بھارت کو کافی نقصان پہنچ سکتا ہےتصویر: Manish Swarup/AP/picture alliance

بنگلہ دیش میں ہونے والی سیاسی افراتفری اور اس کے نتائج پر شاید سب سے زیادہ بحث بھارت میں ہو رہی ہے، جہاں شیخ حسینہ فرار ہو کر پہنچی ہیں۔ بعض حلقے شیخ حسینہ کو بھارت میں سیاسی  پناہ دینے کی بھی یہ کہہ کر وکالت کر رہے ہیں کہ وہ بھارت کی حلیف ہیں اور انہیں پناہ نہ دینے سے ایک غلط پیغام جائے گا۔

بنگلہ دیش: نوبل انعام یافتہ محمد یونس عبوری حکومت کے سربراہ

بھارتی میڈيا میں کئی سازشی نظریات بھی گردش میں ہیں، جس میں بنگلہ دیش کی سیاسی اتھل پتھل کی ذمہ داری پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر ڈالی جا رہی ہے، تو کوئی  پاکستان کی جماعت اسلامی کا ہاتھ ہونے کی بات کر رہا ہے۔ کوئی اس میں چین کی سازش تو امریکہ کے مفاد کی بھی بات کر رہا ہے۔

کیا پاکستان میں بنگلہ دیش جیسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں؟

البتہ بھارت میں شیخ حسینہ کی موجودگی، نئی دہلی کے لیے ایک سفارتی چیلنج اور حکومت کے لیے درد سر سے کم نہیں ہے۔ بھارت کی ایک گہری دوست اچانک ملک کے لیے بغیر دعوت کے مہمان بن گئی ہیں۔ 

بنگلہ دیش کے اصل مسائل اب شروع ہوئے ہیں!

 بہت سے سیاسی تجزیہ کار اسے بھارتی خارجہ پالیسی اور خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی بھی قرار دیتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں اقتدار کی تبدیلی سے بھارت کو کافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

بھارت کی خارجہ پالیسی پر تنقید

کولکتہ میں سینیئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار شبھو جیت بگچی کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ ایک طرح سے بھارتی مفادات کی محافظ تھیں، اس لیے ان کا اقتدار میں نہ رہنا "بھارت کے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔"

بنگلہ دیش میں یہ سگنل گیا کہ بھارت شیخ حسینہ اور عوامی لیگ کے ساتھ ہے، بنگلہ دیش کے ساتھ نہیں ہے اسی لیے بھارت کے خلاف غم و غصہ بھی ہےتصویر: PIB/Handout/Anadolu/picture alliance

وہ اس حوالے سے حکومت کی خارجہ پالیسی پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بھارت نے اپنی پوری طاقت شیخ حسینہ کی حمایت میں جھونک دی اور انہیں یہ سمجھ ہی نہیں آیا کہ عوام کا رجحان کیا ہے۔

شیخ حسینہ کے متعلق ابھی کچھ بھی طے نہیں ہوا ہے، بھارت

ڈی ڈبلیو اردو سے خاص بات چیت میں انہوں نے کہا، "آپ کے پاس دس انڈے تھے ان سب کو آپ نے ایک ہی ٹوکری میں رکھ دیا اور بنگلہ دیش کے عوام کو بھی یہی میسج گیا کہ نئی دہلی ڈھاکہ کا نہیں بلکہ عوامی لیگ کی کا حامی ہے۔"

بنگلہ دیش: فوج کی قیادت یا حمایت والی حکومت قبول نہیں، طلبہ رہنما

انہوں نے مزید کہا، "بنگلہ دیش میں یہ سگنل گیا کہ بھارت شیخ حسینہ اور عوامی لیگ کے ساتھ ہے، بنگلہ دیش کے ساتھ نہیں ہے۔ اسی وجہ سے فی الوقت بنگلہ دیش میں بھارت کے خلاف شدید غم و غصہ بھی پایا جاتا ہے۔"

بنگلہ دیش: مظاہروں کے دوران تقریباً سو ہلاک، غیر معینہ مدت کا کرفیو جاری

دہلی میں مقیم سرکردہ صحافی سنجے کپور بھی اس سے متفق ہیں۔ ڈي ڈبلیو اردو سے خاص بات چیت میں انہوں نے کہا، "فی الوقت تو یہ بہت پریشانی کی بات ہے کہ اتنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔ بھارت نے انہیں وزارت عظمی کے عہدے پر برقرار رکھنے کی بھی تمام کوششیں کیں، تاہم انہیں بچا نہ سکا اور اس کی تمام کوششیں رائیگاں ہو گئیں۔"

بنگلہ دیشی وزیراعظم پندرہ دنوں کے اندر دوسری مرتبہ بھارت میں

ان کا مزید کہنا تھا کہ بنگلہ دیش میں رواں برس جنوری میں ہونے والے انتخابات کے بارے میں سب کو معلوم تھا کہ "یہ یکطرفہ ہیں، تاہم بھارت نے کچھ بھی نہیں کیا، خاموش رہا، بلکہ بھارتی الیکشن کمیشن وہاں گیا اور اس نے انتخابات کے شفاف ہونے کا سرٹیفیکٹ بھی دے دیا۔ یہ تو اپنے ساتھ بھی بہت بڑی زیادتی تھی۔"

البتہ سنجے کپور کہتے ہیں کہ مودی حکومت کو اس بات کا خوف تھا کہ صورتحال بدتر بھی سکتی ہے، اس لیے "ایک دو بار حسینہ کو اپوزیشن کو ساتھ لینے کا مشورہ بھی دیا، تاہم انہوں نے بھارت کی اس بات کو سنا تک نہیں۔۔۔۔۔ پھر جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا۔"

شیخ حسینہ، ایک سورج جو ڈوب گیا

01:46

This browser does not support the video element.

بھارت کو کس طرح کا نقصان ہو سکتا ہے؟

شبھو جیت بگچی کہتے ہیں بنگلہ دیش کی آزادی کے دور سے ہی بھارت کے عوامی ليگ پارٹی سے گہرے تعلقات رہے ہیں، اسی لیے شیخ حسینہ کے اقتدار میں رہتے ہوئے اسے ایڈوانٹیج حاصل رہتا ہے۔

وہ کہتے ہیں، "چونکہ یہ تعلقات اعتماد اور وقت کی کسوٹی پر جانچے پرکھے تھے۔۔۔۔۔ بھارت کا انحصار بھی پوری طرح سے ان پر ہی تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جب سن 2001 سے دو ہزار چھ کے درمیان بی این پی اور جماعت اسلامی کی حکومت تھی، تو بھارت کو بڑے مسائل کا سامنا رہا تھا۔ اس لحاظ سے بھارت کے لیے یہ ایک بڑا نقصان ہے۔"

بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان ایک طویل سرحد ہے، جس سے متصل بھارت کی متعدد شمال مشرقی ریاستوں کو علیحدگی پسندوں کی جانب سے شورش کا سامنا رہا ہے۔ بگچی کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے "بھارت کی سکیورٹی کا بھی اہم مسئلہ تھا۔ لیکن جب سے شیخ حسینہ اقتدار میں آئیں، حالات بہتر ہو گئے، انہوں نے بھارتی مفادات کو تحفظ فراہم کیا۔" 

 تاہم وہ کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ ہی "عوامی لیگ کی حکومت کا طرز حکومت آمرانہ ہوتا چلا گیا اور "المیہ یہ رہا کہ پھر بھی بھارت ان کی حکومت کی حمایت کرتا رہا۔ ۔۔۔ اب نئی صورتحال میں بھارت کے لیے ایک چیلنج ہے۔"

سنجے کپور کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں میں سولہ ارب ڈالر کے کاروباری رشتے ہیں، "اب ان کیا ہو گا؟ شمالی مشرقی ریاستوں کی سکیورٹی کا کیا بنے گا؟ بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی آبادی آٹھ سے نو فیصد ہے، اب اگر ان پر حملے شروع ہو گئے تو بھارت کی طرف تارکین وطن کا سیلاب بھی شروع ہو سکتا ہے۔"

ان کے بقول بنگلہ دیش میں اب ریڈیکل فورسز غالب آ سکتے ہیں۔ بھارت کے لیے اب یہ پوری طرح سے "ایک نئے سیٹ اپ کو سنبھالنے کا معاملہ" ہے۔  

خطے میں امریکہ چین کی رقابت میں بنگلہ دیش کا کردار

باگچی کہتے ہیں کہ چین کے مسئلے پر شیخ حسینہ نے بھارت کی بہت مدد کی۔ "چین انڈین اوشیئن میں بحری بیڑوں کے قیام کے لیے رسائی چاہتا ہے، جسے شیخ حسینہ نے بھارت کی ایما پر اب تک روکے رکھا۔"

 انہوں نے بتایا کہ امریکہ بھی اس علاقے میں آنے کی کوشش میں ہے اور اپنے فوجی اڈے کے لیے وہ بھی رسائی چاہتا ہے، تاہم "بھارت یہ نہیں چاہتا، اس لیے حسینہ نے اسے بھی اجازت نہیں دی۔ یہ "ایک بڑی وجہ تھی کہ بھارت نے ہر حال میں شیخ حسینہ کا ساتھ دیا۔ نئی دہلی کو لگتا تھا کہ شاید کوئی دوسری حکومت ایسا نہ کر پائے۔"

تاہم بگچی کہتے ہیں کہ ان تمام "امور کے حوالے سے اب غیر یقینی صورتحال ہے اور اسی وجہ سے بھارت کی تشویش میں اضافہ" ہوا ہے۔

لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کوئی بھی نئی حکومت بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان کے تجارتی حجم کو کم کرنے پر غور نہیں کر سکتی کیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں ملک کی بڑھتی ہوئی جی ڈي پی کو شدید جھٹکا لگے گا، جو معیشت کے لیے تباہ کن ہو گا۔

انہوں نے بتایا کہ نئی دہلی میں اس بات پر غور و فکر شروع ہو گیا ہے کہ خارجہ پالیسی کی ان غلطیوں کا ازالہ کیسے ہو اور تعلقات کو کیسے از سر نو سنوارا جائے۔  "بھارت افغانستان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لیے جب طالبان سے بات چیت کر رہا ہے، تو بنگلہ دیش کی اپوزیشن جماعت اور جماعت اسلامی سے بات کیوں نہیں کرے گا۔ وہ اپنے مفاد کے لیے ایسا ضرور کرے گا۔"

حسينہ واجد ملک سے فرار، فوجی چيف کا عوام سے خطاب

01:42

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں