بنگلہ دیش کے قیام کی پچاسویں سالگرہ، پوپ کی طرف سے مبارک باد
24 مارچ 2021
دنیا بھر کے کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے بنگلہ دیش کے قیام کی پچاسویں سالگرہ سے دو روز قبل اس جنوبی ایشیائی ملک کو مبارک باد دی ہے۔ بنگلہ دیش نے نصف صدی قبل چھبیس مارچ کو اپنی آزادی کا اعلان کیا تھا۔
اشتہار
اٹلی میں ویٹیکن سٹی سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق کلیسائے روم کے سربراہ نے بدھ کو اپنے ایک ویڈیو پیغام میں جنوبی ایشیا کی اس مسلم اکثریتی ریاست سے مطالبہ کیا کہ وہ آئندہ بھی مکالمت اور سماجی تنوع کے احترام کے راستے پر اپنا سفر جاری رکھے۔
کلیسائے روم کے سربراہ نے اپنے پیغام میں کہا کہ مستقبل میں بھی 'جمہوریت اور صحت مند سیاسی زندگی‘ کو صرف اسی مکالمت اور سماجی تنوع کے احترام کے ساتھ یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
اشتہار
بنگلہ دیش کے بانی کو بھی خراج عقیدت
پوپ فرانسس نے اپنے ویڈیو پیغام میں بنگلہ دیش کے بانی رہنما شیخ مجیب الرحمان کے گزشتہ برس منائے جانے والے سوویں یوم پیدائش کا ذکر بھی کیا۔ انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کے پہلے صدر شیخ مجیب الرحمان (1920ء تا 1975ء) ایک ایسے دانا رہنما تھے، جنہوں نے اس نو آزاد ملک کو 'مکالمت اور تبادلہ خیال کی ثقافت‘ کی وہ میراث دی، جس کا ہمیشہ تحفظ کیا جانا چاہیے۔
پاپائے روم کے مطابق شیخ مجیب الرحمان جانتے تھے کہ ایسا 'صرف تکثیریت اور سب کو ساتھ لے کر چلنے والے معاشرے میں ہی ممکن ہے کہ عام شہری آزادی، امن اور سلامتی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کر سکیں اور اخوت اور انصاف سے عبارت دنیا کی تعمیر‘ کی جا سکے۔
روم میں بنگلہ دیشی خواتین کا دقیانوسی صنفی روایات کو چیلنج
یورپ میں اطالوی دارالحکومت روم ایک بڑی بنگلہ دیشی آبادی کا میزبان شہر ہے، جس میں خواتین کا تناسب تیس فیصد ہے۔ بظاہر بنگلہ دیشی تہذیب مرد کے گرد گھومتی ہے لیکن روم میں یہ صورت حال الٹ کر رہ گئی ہے۔
تصویر: DW/V. Muscella
ایک ابھرتی ہوئی برادری
اطالوی وزارت داخلہ کے مطابق روم میں چالیس ہزار بنگلہ دیشی شہری آباد ہیں۔ ان میں سے بیشتر روم شہر کی ایک مشرقی نواحی بستی ٹور پگناٹارا میں رہتے ہیں۔
تصویر: DW/V. Muscella
’کام عورت کے لیے بہتر ہے‘
چھیالیس برس کی لیلیٰ روایتی ملبوسات کی ایک دوکان کی مالکہ ہیں۔ وہ خواتین کی ایک تنظیم (مہیلا سماج کولان سومیتی) کی صدر بھی ہیں۔ لیلیٰ کے مطابق بعض بنگلہ دیشی شوہر خواتین کے اپنا کوئی کاروبار کرنے کو پسند نہیں کرتے۔
تصویر: DW/V. Muscella
گھسی پٹی روایات سے نکلتے ہوئے
29 برس کی سنجیدہ بھی ایک ثقافتی ثالث ہیں۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کے لیے اٹلی آئی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اٹلی پہنچنے کے بعد انہوں نے حجاب پہننے کا فیصلہ کیا۔ سنجیدہ کے مطابق چند بار انہیں امتیازی رویوں کا سامنا ہوا لیکن انہوں نے اپنے خاندان کی پرورش اسی ملک میں کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ بطور ایک ثقافتی ثالث گھریلوں خواتین سے ملاقاتوں میں انہیں اطالوی زبان کے کورسز میں حصہ لینے کی ترغیب دیتی ہیں۔
تصویر: DW/V. Muscella
تعلیم بھی حقوق کے حصول ہی کا حصہ
بیس سالہ نائر روم ہی میں پیدا ہوئی تھیں۔ وہ لا اسپینزا یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔ نائر کے مطابق وہ بنگلہ دیشی اور اطالوی دونوں تہذیبوں کی حامل ہیں اور تعلیم کو زندگی کا ایک انتہائی اہم پہلو قرار دیتی ہیں۔
تصویر: DW/V. Muscella
بنگلہ دیشی روایات بھی روم پہنچ گئیں
چھیالیس سالہ سلطانہ چھبیس برس قبل اٹلی پہنچی تھیں۔ انہوں نے روایتی فیش کا اپنا ایک بوتیک نواحی علاقے ٹور پگناٹارا میں کھولا۔ سلطانہ کے مطابق اٹلی میں مقیم بنگلہ دیشی خواتین اب گھروں سے باہر نکل کر عملی زندگی کا حصہ بننے کی کوشش میں ہیں۔
تصویر: DW/V. Muscella
دو مختلف تہذیبوں کے درمیان پُل
صائمہ پچاس برس کی ہیں۔ وہ ہسپتالوں، اسکولوں اور سرکاری دفاتر میں ایک ثقافتی ثاللث کے طور پر کام کرتی ہیں۔۔ ان کا خیال ہے کہ اٹلی میں وہ بنگلہ دیشی تہذیب کے چند رنگ کھو تو چکی ہیں لیکن ساتھ ہی وہ کچھ نئے ثقافتی رنگ سمیٹنے میں بھی کامیاب رہیں۔
تصویر: DW/V. Muscella
ایک نئی نسل
ساحلہ اٹھائیس برس کی ہیں، وہ روم میں پیدا ہوئیں اور اسی شہر میں پلی بڑھیں۔ وہ یہ پسند نہیں کرتیں کہ اُن سے پوچھا جائے کہ وہ بنگلہ دیشی ہیں یا اطالوی۔ ساحلہ کا کہنا ہے کہ اطالوی خواتین کی طرح وہ بھی کھلے ذہن کی مالک ہیں لیکن وہ ایک بنگلہ دیشی بھی ہیں۔ ساحلہ کے مطابق اٹلی میں پیدا ہونے والی بنگلہ دیشیوں کی دوسری نسل زیادہ بہتر محسوس کرے گی۔
تصویر: DW/V. Muscella
ثقافتوں کا انضمام
بنگلہ دیش کی مجموعی آبادی میں نوے فیصد مسلمان ہیں جبکہ دس فیصد کے قریب ہندو ہیں۔ ایک اطالوی محقق کاتیوسچیا کارنا کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش کی آبادی میں ہر شخص ایک منفرد پس منظر کا حامل ہے۔
تصویر: DW/V. Muscella
8 تصاویر1 | 8
شیخ مجیب الرحمان، جو بنگلہ دیش کی موجودہ وزیر اعظم شیخ حسینہ کے والد تھے، اپریل 1971ء سے لے کر 15 اگست 1975ء کے روز اپنے قتل تک بنگلہ دیش کے پہلے صدر رہے تھے۔
سابقہ مشرقی پاکستان
بنگلہ دیش ماضی میں پاکستان کا حصہ تھا اور مشرقی پاکستان کہلاتا تھا۔ آج کے بنگلہ دیش نے سابقہ مشرقی پاکستان کے طور پر 26 مارچ 1971ء کے دن مغربی پاکستان کے ساتھ مسلح تنازعے کے دوران اپنی آزادی کا اعلان کر دیا تھا۔
اس خونریز تنازعے کو سابقہ مغربی پاکستان اور موجودہ پاکستان میں بنگلہ دیش کی علیحدگی کی جنگ کا نام دیا جاتا ہے، جس میں بھارتی فوج بھی ایک فریق تھی، جس کے آگے اس جنگ میں سابقہ مشرقی پاکستان میں تعینات پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیے تھے۔
بنگلہ دیش میں اس جنگ کو جنگ آزادی کہا جاتا ہے، جس دوران بہت زیادہ خونریزی ہوئی تھی اور بنگلہ دیشی مؤرخین کے مطابق بے شمار خواتین کو جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
بنگلہ دیشی جماعت اسلامی کے رہنما عبدالقادر مُلا کو جمعرات کی شب دس بج کر ایک منٹ پر پھانسی دی گئی۔ وہ پہلے رہنما ہیں جنہیں 1971ء میں پاکستان سے علیحدگی کے لیے آزادی کی تحریک کے دوران کردار پر تختہ دار پر لٹکایا گیا ہے۔
تصویر: DW/M. Mamun
ملک بھر میں پُر تشدد مظاہرے
عبدالقادر مُلا کو پھانسی دیے جانے کے بعد بنگلہ دیش میں تشدد اور سیاسی افراتفری میں مزید شدت پیدا ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ مُلا کی پھانسی کے ردعمل میں ملک میں پر تشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
تصویر: DW/M. Mamun
پاکستان نواز ملیشیا کا سربراہ ہونے کا الزام
بنگلہ دیش میں قائم کیے جانے والے ایک خصوصی ٹریبونل نے رواں برس فروری میں جماعت اسلامی کے رہنما عبدالقادر مُلا کو پاکستان سے علیحدگی کی تحریک کے دوران ایک پاکستان نواز ملیشیا کا سربراہ ہونے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔ اس ملیشیا پر الزام تھا کہ اس نے بنگلہ دیش کے بعض نامور پروفیسروں، ڈاکٹروں، مصنفین اور صحافیوں کو قتل کیا تھا۔ انہیں عصمت دری، قتل اور قتل عام کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA
بے شمار گھر اور دوکانیں نذرِ آتش
مظاہرین نے کئی مقامات پر حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والوں کی املاک کو نذر آتش کیا ہے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق مظاہرین نے بنگلہ دیش کے مختلف حصوں میں حکومت کے سپورٹرز اور ہندو اقلیت کے گھروں اور دکانوں کو جلایا ہے۔
تصویر: DW/M. Mamun
مشتعل مظاہرین کے ہاتھوں ہلاکتیں
تشدد کے اس تازہ سلسلے میں جمعے کے دن چار افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی۔ مشتعل مظاہرین نے حکمران عوامی لیگ کے دو کارکنوں کو جنوب مغربی علاقے ستخیرہ میں تشدد کر کے ہلاک کر دیا۔ جنوبی ضلع نواکھلی میں جماعت اسلامی کے حامیوں کے ساتھ پولیس کی جھڑپ کے دوران ایک شخص ہلاک ہوا جبکہ مشتعل مظاہرین نے ایک ڈرائیور کو ہلاک کر دیا۔
تصویر: REUTERS
پھانسی کے حامی بنگلہ دیشی شہری
جہاں ایک طبقے کی جانب سے عبدالقادر ملا کی پھانسی پر شدید رد عمل دیکھنے میں آ رہا ہے، وہاں معاشرے کے کئی طبقات میں اس سزا پر اطمینان کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے۔ جمعرات بارہ دسمبر کی اس تصویر میں نظر آنے والے بنگلہ دیشی شہری سپریم کورٹ کی طرف سے ملا کی اپیل مسترد ہونے کے بعد نکالے جانے والے ایک جلوس میں اپنی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔
تصویر: Reuters
پھانسی جمعرات کی شب دی گئی
عبدالقادر مُلا کو منگل کے روز پھانسی دی جانا تھی، تاہم آخری لمحات میں سپریم کورٹ میں نظرثانی کی اپیل دائر کیے جانے کے بعد اس سزا پر عمل درآمد روک دیا گیا تھا۔ عبدالقادر ملا کی جانب سے اپنی سزا پر نظرثانی کے لیے سپریم کورٹ سے اپیل کی گئی تھی، جو مسترد ہو گئی۔ جمعرات کی شب پولیس کے سخت پہرے میں تین ایمبولینس گاڑیاں سڑکوں پر نکلیں، جن میں سے ایک میں غالباً عبدالقادر ملا کی میت تھی۔
تصویر: Reuters
پھانسی سے پہلے آخری ملاقات
عبدالقادر ملا کے قریبی عزیزوں نے جمعرات کے روز دن میں ڈھاکہ جیل میں اُن کے ساتھ آخری ملاقات کی۔ اُسی روز رات کو ملا کی سزائے موت پر عملدرآمد کر دیا گیا۔ بنگلہ دیش کی اپوزیشن پارٹی جماعت اسلامی نے عبدالقادر مُلا کی پھانسی کو ایک سیاسی قتل قرار دیا ہے۔ جماعت کی طرف سے اتوار کے روز عام ہڑتال کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters
مُلا سمیت پانچ رہنماؤں کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے
آزادی کے لیے لڑنے والوں کی بہبود کے لیے قائم ایک تنظیم سے وابستہ افراد اس سال جولائی میں جماعت اسلامی کے ایک رہنما علی احسن محمد مجاہد کو پھانسی کی سزا سنائے جانے پر نعرے لگا رہے ہیں۔ مُلا سمیت اب تک پانچ اپوزیشن اور مذہبی رہنماؤں کو متنازعہ انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کی طرف سے سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔ جنوری سے اب تک اس حوالے سے پھوٹنے والے فسادات کے نتیجے میں 230 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
موجودہ پوپ فرانسس نے نومبر 2017ء میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا تھا، جس دوران انہوں نے عالمی برادری کی توجہ خاص طور پر ان لاکھوں روہنگیا مسلم مہاجرین کو درپیش المناک حالات کی طرف بھی دلائی تھی، جو اس سال میانمار میں اپنے خلاف فوجی کریک ڈاؤن کے باعث ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔
پوپ فرانسس کے اس دورے سے قبل 1970 کے آخر میں پوپ پال ششم اپنے نو روزہ دورہ ایشیا کے دوران (سابقہ) مشرقی پاکستان میں ڈھاکا بھی گئے تھے۔
بنگلہ دیش کی آبادی تقریباﹰ 165 ملین ہے۔ اس مسلم اکثریتی معاشرے میں مسلمانوں کا تناسب تقریباﹰ 90 فیصد ہے۔ ہندو شہری اس جنوبی ایشیائی ملک کی ایک بڑی مذہبی اقلیت ہیں جبکہ ملکی آبادی میں مسیحیوں کا تناسب صرف 0.3 فیصد کے قریب ہے۔
م م / ش ج (کے این اے، ویٹیکن نیوز)
بنگلہ دیش میں جب جب ساون دھوم مچاتا ہے
یوں تو جنوب ایشیائی ممالک کو برسات کے موسم کی آمد کے ساتھ ہی دریاؤں میں طغیانی کے باعث سیلاب کا خطرہ ہوتا ہے لیکن مون سون کے موسم میں بنگلہ دیش جیسے ملک میں ہر چیز خوبصورت اور دھلی دھلی نظر آتی ہے۔
تصویر: DW/M.M.Rahman
سندر بن
سندر بن خلیج بنگال کے ساحلی علاقے کے ساتھ ساتھ پھیلا ہوا گھنا جنگل ہے۔ اسے دنیا کے عجائبات میں شمار کیا جاتا ہے۔ یونیسکو نے اسے سن انیس سو ستانوے میں عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیا تھا۔ بنگالی چیتوں سمیت سندر بن کو جنگلی حیات کے لیے محفوظ ترین جنگلات میں شمار کیا جاتا ہے۔ بارش کے موسم میں یہاں کے نظارے قابلِ دید ہوتے ہیں۔
تصویر: DW/M.M.Rahman
تیرتا ہوا بازار
بنگلہ دیش میں جھالا کاٹھی کے علاقے میں واقع یہ بازار اپنی مثال آپ ہے۔ مقامی دریا سے نکلنے والی نہر میں قائم کی اس مارکیٹ میں کشتیوں پر پھل اور سبزیاں بیچی جاتی ہیں۔ ارد گرد کے علاقے میں تاہم امرود کے باغات ہونے کے باعث یہاں امرود کی فروخت بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے۔ برسات کے موسم میں پانی زیادہ ہونے سے کشتیوں پر کاروبار زیادہ ہوتا ہے اس لیے اس تیرتی ہوئی مارکیٹ کی رونق بھی بڑھ جاتی ہے۔
تصویر: DW/M.M.Rahman
ٹانگوا جھیل
بنگلہ دیش کے صنم گنج ضلع میں واقع ٹانگوا جھیل فطری حسن سے مالا مال ہے۔ خشک سالی ہو تو اس جھیل میں اتنا پانی نہیں ہوتا لیکن ساون جب دھوم مچاتا ہے تو یہاں دور دور تک پانی ہی پانی نظر آتا ہے۔
تصویر: DW/M.M.Rahman
شری مانگل ٹی گارڈن
یہ بنگلہ دیش کا سب سے پہلا اور بڑا چائے کا باغ ہے۔ یہاں کی سبز چائے سب سے زیادہ سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ یہاں ایک سو پچاس سے زیادہ اقسام کی چائے پیدا ہوتی ہے۔ برسات میں یہ باغ اور بھی ہرا بھرا اور خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔
تصویر: DW/M.M.Rahman
بچناکاندی جھیل
بنگلہ دیش کے ضلع سلہٹ کے ایک گاؤں میں آبشاروں کا پانی جمع ہونے کے نتیجے میں بننے والی یہ چھوٹی سی جھیل اب عالمی سطح پر سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔ مون سون کے دنوں میں یہاں بہت سے لوگ سیر و تفریح کی غرض سے آتے ہیں۔
تصویر: DW/M.M.Rahman
پانی میں ڈوبا جنگل
سلہٹ کے ضلع میں گو وائن گھاٹ کے مقام پر واقع یہ دلدلی جنگل بھی فطری حسن میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے بہت کشش رکھتا ہے۔ اس جنگل کی خاص بات یہ ہے کہ مون سون اور اُس کے چھ ماہ بعد تک کے عرصے میں بھی یہاں پانی بھرا رہتا ہے اور سیاح کشتی رانی کا لطف اٹھاتے ہیں۔
تصویر: DW/M.M.Rahman
اڑیل تال
بنگلہ دیش کی دیگر تالوں کی طرح اڑیل تال بھی برسات کے زمانے میں پانی سے بھر جاتی ہے اور موسم کا لطف اٹھانے والے یہاں بھی کشتی چلانے اور پکنک منانے چلے آتے ہیں۔