بنگلہ دیش کے متنازعہ الیکشن، کیا مغربی ممالک ایکشن لیں گے؟
10 جنوری 2019
بنگلہ دیش کے الیکشن میں دھاندلی، بے ضابطگیوں اور اشتعال انگیزی کے الزامات کے باوجود مغربی ممالک اس جنوب ایشائی ملک میں سیاسی عمل کے تسلسل میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے بجائے استحکام کو ترجیح دیں گیے۔
اشتہار
بنگلہ دیش میں تیس دسمبر کو منعقد کرائے گئے پارلیمانی الیکشن میں عوامی لیگ نے ایک مرتبہ پھر بڑی کامیابی حاصل کی۔ اس پارٹی کی رہنما شیخ حسینہ اب مسلسل تیسری مرتبہ وزارت عظمی کا منصب سنبھال چکی ہیں۔
عوامی لیگ نے تین سو نشستوں والی پارلیمان میں دو سو اٹھاسی نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ اپوزیشن کے اتحاد کو صرف سات سیٹوں پر کامیابی ملی۔ ان نتائج کے بعد اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ الیکشن کے نتائج مسترد کرتے ہوئے ملک میں نئے انتخابات کرائے جائیں۔
نہ صرف انتخابی عمل سے قبل بلکہ الیکشن کے دن بھی پرتشدد واقعات رونما ہوئے۔ اس الیکشن کو متنازعہ قرار دیا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود بھارت، چین اور روس نے فوری طور پر وزیر اعظم شیخ حسینہ کو کامیابی حاصل کرنے پر مبارکباد کے پیغامات ارسال کر دیے۔
اگرچہ مغربی ممالک نے بنگلہ دیش میں ہوئے اس الیکشن میں تشدد اور بے ضابطگیوں کی مذمت کی ہے تاہم ناقدین کے مطابق وہ بھی صرف بیانات ہی دیں گے مگر کسی ایکشن سے گریز کریں گے۔
ووڈ رو ولسن سینٹر فار اسکالرز سے وابستہ ماہر سیاسیات مائیکل کوگلمان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ مغربی ممالک کے نزدیک شیخ حسینہ ایک ذمہ دار عالمی رہنما ہیں، جنہوں نے اپنے ملک میں استحکام لانے کی خاطر کئی اہم اقدامات کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شیخ حسینہ کی حکومت میں نہ صرف اقتصادی ترقی کی نمو میں بہتری ہوئی ہے بلکہ اس نے دہشت گردی کے خلاف ٹھوس ایکشن لیا اور روہنگیا مہاجرین کو پناہ دی۔ کوگلمان کے خیال میں بنگلہ دیش کے الیکشن ملک کا داخلی معاملہ ہیں، جس پر مغربی ممالک کوئی زیادہ شدید تحفظات نہیں رکھتے۔
لندن اسکول آف اکنامکس سے منسلک سوشل پالیسی کے پروفیسر ڈیوڈ لوئیس کا خیال بھی یہی ہے کہ مغربی ممالک شیخ حسینہ کی حکومت کو مستحکم سمجھتے ہیں، جس نے ملک میں اقتصادی ترقی کی راہ ہموار کی اور کئی ایسے مسائل کی طرف توجہ دی، جو مغربی ممالک کے لیے اہم ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ مغربی ممالک بنگلہ دیش کے الیکشن کے نتائج کو چیلنج کر کے اس ملک میں عدم استحکام کا باعث نہیں بننا چاہیں گے۔
ع ب / ع ا / ا ب ا
روہنگیا مہاجرین واپسی کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے
بنگلہ دیش میں سات لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین پرتشدد حالات سے فرار ہو کر گزشتہ برس پہنچے تھے۔ کیمپوں میں مقیم روہنگیا مہاجرین کے ایک گروپ نے جمعرات پندرہ نومبر کو میانمار واپسی کے خلاف انکار کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
میانمار واپسی کے خلاف مہاجرین کا احتجاج
جمعرات پندرہ نومبر کو میانمار واپسی کے خلاف ڈیڑھ سو روہنگیا مہاجرین نے میانمار کی سرحد پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرے کے دوران مظاہرین’ واپس نہیں جائیں گے‘ کے نعرے لگاتے رہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی واپسی کے عمل پر مطمئن نہیں
بنگلہ دیش اور میانمار نے بائیس سو مہاجرین کی واپسی پر اتفاق کیا تھا۔ اس واپسی کے عمل پر اقوام متحدہ کے علاوہ انسانی حقوق کی تنظمیوں نے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوسے تنقید کی تھی۔ ان اداروں کے مطابق روہنگیا مہاجرین کی واپسی سے دوبارہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
روہنگیا اقلیت کا میانمار کی فوج کے ہاتھوں استحصال
سات لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین میانمار کی راکھین ریاست سے اپنی جانیں بچا کر بنگلہ دیش اگس سن 2017 میں داخل ہوئے تھے۔ ان مہاجرین کا کہنا ہے کہ میانمار کی فوج اور بدھ شہریوں نے اُن کے خاندانوں کا قتلِ عام کیا اور اُن کی خواتین کی اجتماعی عصمت دری بھی کی۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے بھی ان واقعات میں نسل کشی کا الزام میانمار کی فوجی قیادت پر عائد کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
’میں واپس نہیں جاؤں گا‘
پینتیس سالہ روہنگیا مہاجر نورلامین اپنی بیوی اور خاندان کے ہمراہ جمٹولی ریفیوجی کیمپ میں مقیم ہے۔ یہ کاکس بازار کے نواح میں ہے۔ نورلامین اور اس کے خاندان نے واضح کیا ہے کہ وہ اپنے خوف کی وجہ سے میانمار واپس نہیں جانا چاہتے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin
دس لاکھ سے زائد روہنگیا ریفیوجی کیمپوں میں
بنگلہ دیشی بندرگاہی شہر کاکس بازار کے ریفیوجی کیمپ میں دس لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس باعث قدرے کمزور معاشی حالات والے ملک بنگلہ دیش کو اسں انسانی المیے سے نبردآزما ہونے میں شدید پیچیگیوں اور مشکلات کا سامنا ہے۔