بنگلہ دیش کے معروف سائنس فکشن ادیب محمد ظفر اقبال سلہٹ میں کیے گئے ایک قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہو گئے۔ پولیس کے مطابق ان پر ایک نامعلوم حملہ آور نے تیز دھار آلے سے اچانک حملہ کر دیا تھا۔ انہیں سر پر شدید چوٹیں آئیں۔
تصویر: Getty Images/M. H. Opu
اشتہار
بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکا سے ہفتہ تین مارچ کو موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق مقامی حکام نے بتایا کہ محمد ظفر اقبال پر ایک تیز دھار آلے سے حملہ آج شمال مشرقی شہر سلہٹ کی ایک یونیورسٹی میں کیا گیا۔ یہ بنگلہ دیشی ادیب، جو ایک سائنس فکشن رائٹر کے طور پر بہت مشہور ہیں، سلہٹ کی شاہ جلال یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ایک پروفیسر بھی ہیں اور اس حملے کے بعد انہیں فوری طور پر شہر کے عثمانی میڈیکل کالج پہنچا دیا گیا۔
شاہ جلال یونیورسٹی کے پروکٹر ظہیرالدین نے بتایا کہ محمد ظفر اقبال کا ہسپتال میں علاج جاری ہے اور اس 65 سالہ ادیب اور پروفیسر پر ایک بڑے چاقو سے سر پر حملہ ان کے پیچھے سے یکدم کیا گیا۔ حملے کے وقت ظفر اقبال شاہ جلال یونیورسٹی کی طرف سے اہتمام کردہ ایک سائنسی میلے کے شرکاء سے خطاب کرنے کے لیے اسٹیج کی طرف بڑھ رہے تھے۔
کنول کے پھولوں کی گلابی جنت میں خوش آمدید
بنگلہ دیش میں ہر سال اکتوبر کے مہینے میں باریشال شہر سے ساٹھ کلو میٹر دور واقع لینڈ اسکیپ گلابی رنگ کی چادر اوڑھ لیتا ہے۔ یہ نظارہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ دیکھیے تو جھیل کے پانی پر کنول کے پھول کیسے رنگ بکھیر رہے ہیں۔
تصویر: DW/Muhammad Mostafigur Rahman
جھیل کنول
کنول کے پھولوں سے بھری ہوئی یہ جھیل اجیر پور سب ڈسٹرکٹ کے گاؤں ساتھلا میں واقع ہے۔ ساتھلا میں ایسی کئی جھیلیں ہیں جنہیں آج کل گلابی پھولوں نے اسی طرح ڈھک رکھا ہے۔
تصویر: DW/Muhammad Mostafigur Rahman
جھیل تک کیسے پہنچیں؟
ساتھلا گاؤں کی جھیلوں میں افراط میں کھلے کنول کے پھولوں کو دیکھنے کے لیے ڈھاکا سے باریشال شہر پہنچنا ہوتا ہے اور وہاں سے ساتھلا گاؤں تک کا راستہ آٹو رکشہ کے ذریعے طے کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/Muhammad Mostafigur Rahman
صبح صبح جانا ہو گا
پھولوں کے حسن کا دل بھر کے نظارہ کرنا ہے تو پھر صبح سویرے جانا ہو گا۔ جیسے جیسے دن ڈھلتا ہے پھول کم ہوتے جاتے ہیں کیونکہ تب تک مقامی لوگ انہیں توڑ کر لے جا چکے ہوتے ہیں۔
تصویر: DW/Muhammad Mostafigur Rahman
ناؤ کی سواری
جھیل میں چھوٹی چھوٹی کشتیاں جا بجا نظر آتی ہیں۔ مقامی لوگ سیاحوں کو ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک جھیل کی سیر کراتے ہیں جو اُن کی کمائی کا ذریعہ بھی ہے۔
تصویر: DW/Muhammad Mostafigur Rahman
قدرتی حسن بھی آمدن بھی
یہ پودے نہ صرف مقامی کسانوں کو ایک دل لبھانے والی خوبصورتی سے محظوظ ہونے کا موقع دیتے ہیں بلکہ اُن کے لیے آمدنی کا ذریعہ بھی ہیں۔
تصویر: DW/Muhammad Mostafigur Rahman
پھول بیچیں بھی اور کھائیں بھی
بہت سے کسان یہاں کھلنے والے کنول کے پھولوں کو مقامی بازاروں میں بطور سبزی بیچنے کے لیے جمع کرتے ہیں۔ ان پھولوں کو پکایا بھی جاتا ہے۔
تصویر: DW/Muhammad Mostafigur Rahman
مچھلیاں بھی افراط میں
نہ صرف یہ پھول مقامی آبادی کو روزگار فراہم کرتے ہیں بلکہ اسی سیزن میں جھیل میں مچھلیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ یہ مچھلیاں بھی نہ صرف بازار میں فروخت کی جاتی ہیں بلکہ گاؤں والوں کی خوراک کا ایک ذریعہ بھی بن جاتی ہیں۔
تصویر: DW/Muhammad Mostafigur Rahman
باقی موسموں میں کھیتی باڑی
کنول کھلنے کے موسم میں تو مقامی لوگوں کا گزارہ انہیں بیچ کر اور کھانے میں استعمال کر کے ہو جاتا ہے۔ دیگر موسموں میں یہاں کے لوگ کھیتی باڑی اور مویشی بانی کے ذریعے گزر بسر کرتے ہیں۔
تصویر: DW/Muhammad Mostafigur Rahman
ایک گلدستے کی قیمت پانچ ٹکے
ایک پھولوں کا گچھہ جس میں پندرہ سے بیس پھول ہوتے ہیں، تین سے پانچ ٹکوں میں فروخت ہوتا ہے۔ پھولوں کو توڑنے میں صرف بڑے لوگ ہی نہیں بلکہ گاؤں کے بچے بھی بہت ذوق وشوق سے حصہ لیتے ہیں۔ یہ کام اُن کے لیے کھیل بھی ہے اور پیسے کمانے کا ذریعہ بھی۔
تصویر: DW/Muhammad Mostafigur Rahman
سیاحوں کے لیے سہولیات نہیں
ساتھلا گاؤں کی کنول کے پھولوں سے مرصّع جھیلوں کو بنگلہ دیش بھر سے سیاح دیکھنے آتے ہیں۔ تاہم بنگلہ دیش کے محکمہ سیاحت نے ابھی تک ان سیاحوں کے ٹھہرنے کے لیے ہوٹل اور جھیل تک پہنچنے کے لیے ٹرانسپورٹ کا کوئی بندوبست نہیں کیا ہے۔
تصویر: DW/Muhammad Mostafigur Rahman
10 تصاویر1 | 10
یونیورسٹی پروکٹر ظہیرالدین کے مطابق پولیس نے حملہ آور کو گرفتار کر لیا ہے تاہم ابھی تک اس کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔ عثمانی میڈیکل کالج کے منتظم اعلیٰ محبوب الحق نے صحافیوں کو بتایا کہ ہسپتال پہنچائے جانے کے فوری بعد محمد ظفر اقبال کا ان کے سر پر آنے والی شدید چوٹ کی وجہ سے آپریشن بھی کر دیا گیا۔
اس بنگلہ دیشی ادیب اور ماہر تعلیم کو ماضی میں کئی مرتبہ مذہبی بنیاد پرستوں اور شدت پسندوں کی طرف سے جان کی دھمکیاں بھی دی گئی تھیں، جن کی وجہ ظفر اقبال کی سائنسی اور سیکولر تحریریں بنی تھیں۔ ان پر حملے کے بعد ملکی نشریاتی اداروں پر دکھائی جانے والی فوٹیج کے مطابق ان کے زخمی ہونے کی خبر پھیلتے ہوئے شاہ جلال یونیورسٹی کے سینکڑوں طلبہ نے کیمپس کی حدود میں احتجاجی مظاہرے بھی شروع کر دیے تھے۔
مسلم اکثریتی بنگلہ دیش میں گزشتہ برسوں کے دوران سیکولر مصنفین، بلاگرز، سماجی کارکنوں اور پبلشرز تک کو حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے اور اس دوران مذہبی شدت پسندی کے مخالف اور سیکولر نظریات کے حامی کئی سرگرم افراد کو قتل بھی کر دیا گیا۔ 2015ء اور 2016ء سے اب تک ایسی پرتشدد کارروائیوں کے دوران مقامی غیر مسلم اقلیتیوں سے تعلق رکھنے والی چند سرکردہ شخصیات کو بھی ہلاک کیا جا چکا ہے۔
ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں شدت پسندانہ حملوں کی اس لہر کے دوران اب تک مارے جانے والے افراد میں کم از کم چار لادین بلاگرز، ایک پبلشر، دو ہندو پنڈت، ہم جنس پرست افراد کے حقوق کی وکالت کرنے والے دو افراد اور ایک یونیورسٹی استاد بھی شامل ہیں۔
سلہٹ سے ہفتے کی شام ملنے والی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پروفیسر محمد ظفر اقبل کی حالت اب خطرے سے باہر ہے اور انہیں مزید علاج کے لیے ملکی دارالحکومت ڈھاکا کے کمبائنڈ ملٹری ہسپتال میں پہنچا دیا گیا ہے۔
بنگلہ دیش میں جب جب ساون دھوم مچاتا ہے
یوں تو جنوب ایشیائی ممالک کو برسات کے موسم کی آمد کے ساتھ ہی دریاؤں میں طغیانی کے باعث سیلاب کا خطرہ ہوتا ہے لیکن مون سون کے موسم میں بنگلہ دیش جیسے ملک میں ہر چیز خوبصورت اور دھلی دھلی نظر آتی ہے۔
تصویر: DW/M.M.Rahman
سندر بن
سندر بن خلیج بنگال کے ساحلی علاقے کے ساتھ ساتھ پھیلا ہوا گھنا جنگل ہے۔ اسے دنیا کے عجائبات میں شمار کیا جاتا ہے۔ یونیسکو نے اسے سن انیس سو ستانوے میں عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیا تھا۔ بنگالی چیتوں سمیت سندر بن کو جنگلی حیات کے لیے محفوظ ترین جنگلات میں شمار کیا جاتا ہے۔ بارش کے موسم میں یہاں کے نظارے قابلِ دید ہوتے ہیں۔
تصویر: DW/M.M.Rahman
تیرتا ہوا بازار
بنگلہ دیش میں جھالا کاٹھی کے علاقے میں واقع یہ بازار اپنی مثال آپ ہے۔ مقامی دریا سے نکلنے والی نہر میں قائم کی اس مارکیٹ میں کشتیوں پر پھل اور سبزیاں بیچی جاتی ہیں۔ ارد گرد کے علاقے میں تاہم امرود کے باغات ہونے کے باعث یہاں امرود کی فروخت بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے۔ برسات کے موسم میں پانی زیادہ ہونے سے کشتیوں پر کاروبار زیادہ ہوتا ہے اس لیے اس تیرتی ہوئی مارکیٹ کی رونق بھی بڑھ جاتی ہے۔
تصویر: DW/M.M.Rahman
ٹانگوا جھیل
بنگلہ دیش کے صنم گنج ضلع میں واقع ٹانگوا جھیل فطری حسن سے مالا مال ہے۔ خشک سالی ہو تو اس جھیل میں اتنا پانی نہیں ہوتا لیکن ساون جب دھوم مچاتا ہے تو یہاں دور دور تک پانی ہی پانی نظر آتا ہے۔
تصویر: DW/M.M.Rahman
شری مانگل ٹی گارڈن
یہ بنگلہ دیش کا سب سے پہلا اور بڑا چائے کا باغ ہے۔ یہاں کی سبز چائے سب سے زیادہ سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ یہاں ایک سو پچاس سے زیادہ اقسام کی چائے پیدا ہوتی ہے۔ برسات میں یہ باغ اور بھی ہرا بھرا اور خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔
تصویر: DW/M.M.Rahman
بچناکاندی جھیل
بنگلہ دیش کے ضلع سلہٹ کے ایک گاؤں میں آبشاروں کا پانی جمع ہونے کے نتیجے میں بننے والی یہ چھوٹی سی جھیل اب عالمی سطح پر سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔ مون سون کے دنوں میں یہاں بہت سے لوگ سیر و تفریح کی غرض سے آتے ہیں۔
تصویر: DW/M.M.Rahman
پانی میں ڈوبا جنگل
سلہٹ کے ضلع میں گو وائن گھاٹ کے مقام پر واقع یہ دلدلی جنگل بھی فطری حسن میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے بہت کشش رکھتا ہے۔ اس جنگل کی خاص بات یہ ہے کہ مون سون اور اُس کے چھ ماہ بعد تک کے عرصے میں بھی یہاں پانی بھرا رہتا ہے اور سیاح کشتی رانی کا لطف اٹھاتے ہیں۔
تصویر: DW/M.M.Rahman
اڑیل تال
بنگلہ دیش کی دیگر تالوں کی طرح اڑیل تال بھی برسات کے زمانے میں پانی سے بھر جاتی ہے اور موسم کا لطف اٹھانے والے یہاں بھی کشتی چلانے اور پکنک منانے چلے آتے ہیں۔