بنگلہ دیش ہڑتال: سو سے زائد اپوزیشن حامیوں کو جیل
13 جون 2011ڈھاکہ پولیس کے مطابق حزب اختلاف کے 122حامیوں کو چھ ماہ تک کی جیل کی سزا سنائی گئی ہے، جبکہ سو سے زائد دیگر پولیس کی حراست میں ہیں۔ پولیس کے ترجمان مسعود احمد نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’’ پولیس کے ساتھ کام کرنے والی خصوصی مجسٹریٹس کی ٹیم نے ان لوگوں کو چھ ماہ تک کی سزا سنائی ہے۔‘‘ مسعود احمد کے مطابق ہفتے کی شب سے جاری احتجاجی مظاہروں کے دوران اب تک 87 افراد کو موقع پر ہی سزا سنائی گئی۔
بنگلہ دیش کے جنوبی بندرگاہی شہر چٹاگانگ میں 28 افراد کو جیل کی سزا سنائی گئی، جبکہ سات افراد کو سِراج گنج سمیت شمالی علاقوں میں مظاہروں میں شریک ہونے پر سزائے قید دی گئی۔ ہڑتال کے دوران سراج گنج میں شدید ترین احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
سراج گنج کے ایک مقامی پولیس انسپکٹر مصطفٰی ہاروں کے مطابق پولیس نے ربڑ کی گولیاں چلائیں اور مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس استعمال کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کارروائی کے دوران دو پولیس اہلکاروں سمیت درجنوں افراد زخمی ہوئے۔
پولیس حکام کے مطابق ملک کے کئی ایک شہروں میں چھوٹے پیمانے پر مگر پر تشدد مظاہروں کے دوران کم از کم نو بسوں اور ٹیکسیوں کو آگ لگا دی گئی۔ ہڑتال کے دوران حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے نو ہزار سے زائد پولیس اہلکار جبکہ تین ہزار پیراملٹری اہلکاروں کو ڈھاکہ میں تعینات کیا گیا ہے۔
ملکی آئین میں انتخابی قوانین کے حوالے سے حالیہ ترامیم کے خلاف ملک کی اہم اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی بی این پی اور اس کی حامی جماعت اسلامی نے احتجاج کے لیے ہڑتال کی کال دی تھی۔ ان جماعتوں کے مطابق ان ترامیم کے ذریعے حکومتی جماعت فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔
بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ ملک میں گزشتہ ایک دہائی سے موجود قانون کو ختم کردیا جائے گا جس کے مطابق انتخابات کرانے کے لیے ایک عبوری حکومت تین ماہ کے لیے کاروبار حکومت سنھبال لیتی ہے۔
اپوزیشن رہنما خالدہ ضیاء کا کہنا تھا کہ اگر اس قانون کو ختم کردیا گیا تو ان کی جماعت اگلے انتخابات میں حصہ نہیں لے گی۔ یہ قانون ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: امتیاز احمد