بنگلہ دیش: ہڑتال کے دوران پرتشدد واقعات کی اطلاعات
18 نومبر 2025
گذشتہ روز شیخ حسینہ کو انسانیت کے خلاف مبینہ جرائم کے الزام میں موت کی سزا سنائے جانے کے بعد بنگلہ دیش میں عموماً حالات کشیدہ ہیں۔ شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ نے منگل کے روز مکمل شٹ ڈاؤن کی اپیل کی تھی، جس کی وجہ سے سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ پیر کے روز ڈھاکہ کی ایک خصوصی عدالت نے معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ اور ان کے دو ساتھیوں کو انسانیت سوز جرائم کے لیے موت کی سزا سنائی تھی اور اسی کے خلاف بطور احتجاج عوامی لیگ نے دو روزہ ’’مکمل بندش‘‘ کا اعلان کیا تھا۔
اس کی وجہ سے عام طور پر عوامی نقل و حرکت محدود ہے، اور حکام نے بڑے شہروں میں سخت گشت اور چوکیوں کو برقرار رکھنے کی تلقین کی ہے۔
سزا کے خلاف احتجاج کی اپیل
شیخ حسینہ کی عوامی لیگ پارٹی نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں سزائے موت کے فیصلے کے خلاف احتجاج میں منگل کو ''ملک بھر میں مکمل بندش‘‘ کا مطالبہ کیا، جبکہ پارٹی نے 19 سے 21 نومبر تک ''ملک گیر مظاہرے، احتجاج اور مزاحمت‘‘ کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
اس تعلق سے بیان میں کہا گیا کہ، ’’ہماری منظم جمہوری تحریک قاتل فاشسٹ (محمد) یونس کی غیر قانونی، غیر آئینی حکومت کے خاتمے اور جمہوری ریاستی نظام کی بحالی تک جاری رہے گی۔‘‘
پارٹی نے موت کی سزا کے فیصلے کو ’’سیاسی محرک‘‘ قرار دیتے ہوئے اسے ’’بد نیتی پر مبنی، انتقامی کارروائی‘‘ قرار دیا۔
عوامی لیگ نے محمد یونس کی انتظامیہ کے تحت قائم ٹرائیبونل پر بھی سوال اٹھائے ہیں اور کہا ہے کہ ایک ’’منتخب حکومت کی بجائے، غیر قانونی، غیر آئینی، بلا منتخب فاشسٹ یونس اور ان کے ساتھیوں نے ملک میں غیر قانونی طور پر اقتدار پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ان لوگوں نے بین الاقوامی اصول و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک غیر قانونی ٹرائبیونل قائم کیا۔‘‘
اس سے قبل شیخ حسینہ نے ڈھاکہ کی خصوصی عدالت کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’’متعصبانہ اور سیاسی بنیادوں‘‘ پر سنایا جانے والا فیصلہ قرار دیا تھا۔
پرتشدد واقعات کا سلسلہ جاری
ڈھاکہ کے معروف اخبار ’دی ڈيلی اسٹار‘ کی رپورٹس کے مطابق گزشتہ ہفتے سے ملک بھر میں 50 سے زیادہ آتش زنی اور پٹرول بم حملوں کی اطلاعات ملی ہیں، جس میں اب تک کم از کم تین افراد ہلاک ہوئے۔
اخبار کے مطابق مختلف علاقوں سے اس طرح کے اکا دکا واقعات کی اطلاعات اب بھی مل رہی ہیں۔ آج صبح بھی ڈسٹرکٹ سول سرجن کے دفتر میں کھڑی ایک ایمبولینس کو نذر آتش کرنے کا واقعہ پیش آیا۔ بعض شر پسندوں نے دو اسکولوں کو بھی آگ لگا دی اور پولیس ان واقعات کی تفتیش کر رہی ہے۔
اخبار نے متعدد مقامات پر بسوں اور گاڑیوں کے نذر آتش کرنے کے واقعات کا بھی ذکر کیا ہے۔
انسانی حقوق کے اداروں کا رد عمل
ادھر انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اپنے رد عمل میں شیخ حسینہ کے خلاف مقدمے کی سماعت کو غیر منصفانہ قرار دیا ہے۔
تنظیم کے سکریٹری جنرل اگنیس کالمارڈ نے کہا، ’’جن پر انسانیت کے خلاف جرائم کا الزام ہے، ان کے الزامات کی تحقیقات ہونی چاہیے اور ان پر منصفانہ ٹرائل ہونا چاہیے، جو لوگ ان جرائم کا شکار تھے، انہیں انصاف ملنا چاہیے۔ تاہم سزائے موت انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ یہ ایک غیر انسانی سزا ہے، اور کسی بھی منصفانہ عمل میں موت کی سزا نہیں ہونی چاہیے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’ایمنسٹی انٹرنیشنل طویل عرصے سے اس عدالت کی مخالف رہی ہے، جہاں یہ مقدمہ چلا۔ ایک پیچیدہ مقدمے میں ملزم کی غیر موجودگی کے دوران بے مثال رفتار کے ساتھ یہ فیصلہ سنایا گیا، جس سے اس کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھتے ہیں۔‘‘
سابق صدر کی رہائش گاہ پر حملہ
بنگلہ دیش کے کشور گنج کے علاقے میں رات کے دوران سابق صدر عبدالحامد کے گھر پر حملہ کیا گیا اور توڑ پھوڑ کی اطلاعات ہیں۔
سزائے موت سنائے جانے کے بعد اپوزیشن نے بنگلہ دیش نیشنل پارٹی اس پر خوشی کے اظہار کے لیے جلوس نکالا اور الزام ہے کہ 20 سے 30 لوگوں کا ایک گروپ سابق صدر کے گھر میں اس وقت داخل ہوا جب جلوس مٹھاموئن بازار سے کمال پور گاؤں کی طرف بڑھ رہا تھا۔
کچھ لوگ دروازے توڑ کر اندر داخل ہوئے اور انہوں نے کھڑکیوں، کرسیاں، فرنیچر اور دیگر سامان سمیت مختلف اشیا کی توڑ پھوڑ کی۔ البتہ اس وقت گھر میں عبدالحمید کے رشتہ داروں سمیت کوئی بھی نہیں تھا۔
ادارت: کشور مصطفیٰ