’بن لادن کا پتہ چلانے میں آئی ایس آئی نے امریکا کی مدد کی‘
23 جولائی 2019
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ القاعدہ کے روپوش رہنما اسامہ بن لادن کا پتہ چلانے میں پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی نے امریکا کی مدد کی تھی۔ عمران خان نے یہ بات اپنے دورہ امریکا کے دوران واشنگٹن میں کہی۔
اشتہار
امریکی دارالحکومت سے منگل تیئیس جولائی کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اپنے اوّلین سرکاری دورے پر امریکا گئے ہوئے پاکستانی سربراہ حکومت نے پیر بائیس جولائی کے روز کہا کہ امریکی فوجی کمانڈوز نے پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں اپنی جس شبینہ کارروائی میں دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے روپوش سربراہ کو ان کی رہائش گاہ پر ہلاک کر دیا تھا، وہ ان خفیہ اطلاعات کی وجہ سے ممکن ہو سکی تھی، جو پاکستانی انٹیلیجنس نے امریکی حکام کو مہیا کی تھیں۔
اہم بات یہ ہے کہ پاکستان نے سرکاری طور پر ہمیشہ اس بات سے انکار ہی کیا ہے کہ اسے یہ خبر تھی کہ اسامہ بن لادن کہاں چھپے ہوئے تھے۔ پھر دو مئی 2011ء کو ایبٹ آباد شہر میں رات کے وقت کی گئی ایک خفیہ امریکی فوجی کارروائی میں بن لادن کی ہلاکت کا واقعہ پیش آیا تھا، جو پاکستان کے لیے قومی سطح پر نہ صرف بہت زیادہ شرمندگی کا سبب بنا تھا بلکہ اس کی وجہ سے اسلام آباد اور واشنگٹن کے باہمی تعلقات میں بہت کھچاؤ بھی پیدا ہو گیا تھا۔
شکیل آفریدی کی ممکنہ رہائی ایک 'جذباتی معاملہ‘
اسی سلسلے میں عمران خان سے امریکی نشریاتی ادارے فوکس نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران جب پیر کی رات یہ پوچھا گیا کہ آیا پاکستانی حکومت ڈاکٹر شکیل آفریدی کو رہا کر دے گی، تو عمران خان نے کہا، ''یہ ایک بہت جذباتی معاملہ ہے، اس لیے کہ شکیل آفریدی کو پاکستان میں ایک جاسوس سمجھا جاتا ہے۔‘‘
شکیل آفریدی وہی پاکستانی ڈاکٹر ہیں، جنہوں نے سی آئی اے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ایک جعلی ویکسینیشن مہم کے ذریعے امریکا کی مدد کی تھی کہ وہ یہ پتہ چلا سکے کہ بن لادن کہاں چھپے ہوئے تھے۔ یہ طے ہونے کے بعد کہ ایبٹ آباد شہر میں ایک بڑے کمپاؤنڈ میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہائش پذیر شخص اسامہ بن لادن ہی تھے، امریکا نے آٹھ سال قبل مئی کے مہینے میں وہاں خفیہ فوجی آپریشن کیا تھا۔
فوکس نیوز کے ساتھ انٹرویو میں جب میزبان بریٹ بائیر نے پاکستانی وزیر اعظم سے بن لادن کے بارے میں ایک اور سوال پوچھا، تو عمران خان نے کہا، ''پاکستان میں ہم ہمیشہ یہ محسوس کرتے تھے کہ ہم امریکا کے اتحادی ہیں۔ اور اگر ہم نے بن لادن کے بارے میں امریکا کو اطلاع دی تھی، تو انہیں پکڑنا بھی ہمیں ہی چاہیے تھا۔‘‘
امریکا کو اطلاع آئی ایس آئی نے دی تھی
جب عمران خان سے یہ پوچھا گیا کہ آیا وہ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کی طرف سے انتہائی اہم معلومات افشاء کیے جانے کے بعد اس ایجنسی کے بارے میں کافی کم امیدی بھی پائی جاتی تھی، تو پاکستانی وزیر اعظم نے کہا، ''یہ آئی ایس آئی ہی تھی، جس نے امریکا کو وہ اطلاعات مہیا کی تھیں، جن کی بنیاد پر یہ طے ہو سکا تھا کہ بن لادن کہاں چھپے ہوئے تھے۔ اگر آپ سی آئی اے سے پوچھیں، تو وہ بھی یہی کہیں گے کہ پاکستان کی انٹرسروسز انٹلیجنس ہی وہ ایجنسی تھی، جس نے ٹیلی فون رابطے کی بنیاد پر اس بارے میں اولین اطلاع دی تھی کہ بن لادن کہاں تھے۔‘‘
اس بارے میں اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں اے ایف پی نے لکھا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم کے اس دعوے کے باوجود یہ بات واضح نہیں کہ وہ درحقیقت کس طرح کی معلومات اور ان کی امریکا کو فراہمی کی بات کر رہے تھے۔ اس حوالے سے عمران خان نے اس سے زیادہ کوئی تفصیلات نہیں بتائیں۔
'پاکستان کو بن لادن کے ٹھکانے کا غالباﹰ علم تھا‘
اگرچہ پاکستان آج بھی سرکاری طور پر ایسے دعووں کی تردید کرتا ہے کہ ملکی حکام جانتے تھے کہ پاکستانی سرزمین پر ہی بن لادن کہاں چھپے ہوئے تھے، تاہم آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ اسد درانی نے 2015ء میں الجزیرہ ٹی وی کو بتایا تھا کہ آئی ایس آئی کو غالباﹰ علم تھا کہ بن لادن کہاں چھپے ہوئے تھے اور القاعدہ کے سربراہ کی ہلاکت تک پاکستانی حکام کو امید تھی کہ وہ شاید بن لادن کی ممکنہ گرفتاری کو امریکا کے ساتھ اپنی بات چیت میں ایک 'چِپ‘ کے طور پر اپنے حق میں ا ستعمال کر سکتے تھے۔
پاکستانی حکومت کی ایک لیک ہو جانے والی رپورٹ کے مطابق 2001ء میں افغانستان پر امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کے فوجی حملے کے بعد 2002ء کے موسم گرما میں بن لادن افغانستان سے فرار ہو کر پاکستان پہنچ گئے تھے اور اگست 2005ء میں وہ ایبٹ آباد میں قیام پذیر ہو گئے تھے، جہاں مئی 2011ء میں وہ امریکی فوجی کمانڈوز کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔
م م / ع ا / اے ایف پی
حقانی نیٹ ورک کیا ہے؟
حقانی نیٹ ورک ایک افغان جنگجو گروہ ہے، جو افغانستان میں مقامی اور امریکی تحادی افواج کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ افغان حکام اور عالمی برادری اسے افغانستان میں فعال ایک انتہائی خطرناک عسکری گروہ قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک کب بنا؟
عشروں پہلے سوویت یونین کے دستوں کے خلاف لڑنے والے کمانڈر جلال الدین حقانی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی۔ افغان جنگ کے دوران اسّی کی دہائی میں اس گروہ کو امریکی حمایت بھی حاصل تھی۔ سن 1995 میں اس نیٹ ورک نے طالبان کے ساتھ اتحاد کر لیا تھا۔ 1996ء میں طالبان حقانی نیٹ ورک کی مدد سے ہی کابل پر قبضہ کرنے کے قابل ہوئے تھے۔ سن دو ہزار بارہ میں امریکا نے حقانی نیٹ ورک کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دے دیا تھا۔
تصویر: AP
جلال الدین حقانی اور طالبان
طالبان کی حکومت میں جلال الدین حقانی کو قبائلی امور کا وزیر بنا دیا گیا تھا۔ امریکی اتحادی افواج کی کارروائی یعنی سن دو ہزار ایک تک وہ اسی منصب پر فائز رہے۔ امریکی اتحادی افواج نے سن دو ہزار ایک میں ہی طالبان کی خود ساختہ حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ ملا عمر کے بعد جلال الدین حقانی کو طالبان کا معتبر ترین رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ حقانی کے اسامہ بن لادن سے بھی قریبی تعلقات تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جلال الدین حقانی کی نجی زندگی
سن 1939 میں افغان صوبے پکتیا میں پیدا ہونے والے جلال الدین حقانی نے پاکستان میں قائم دارالعلوم حقانیہ نامی مدرسے سے تعلیم حاصل کی۔ یہ وہی مدرسہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں افغان طالبان کے ساتھ ہمدردی کا عنصر نمایاں ہے۔ جلال الدین حقانی نے دو شادیاں کیں۔ ان کی ایک اہلیہ کا تعلق متحدہ عرب امارات سے بتایا جاتا ہے۔ حقانی کو سنی خلیجی ممالک میں کافی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
یہ نیٹ ورک ہے کہاں؟
حقانی نیٹ ورک کا کمانڈ سینٹر مبینہ طور پر پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ میں قائم ہے۔ امریکی اور افغان حکام کا کہنا ہے کہ اس گروہ کو پاکستانی فوج کی حمایت بھی حاصل ہے اور یہ افغانستان میں سرحد پار کارروائیاں بھی کرتا رہتا ہے۔ تاہم پاکستان یہ الزامات رد کرتا ہے۔ یہ نیٹ ورک افغانستان میں امریکی اور ملکی حکومت کے مفادات کو نشانہ بناتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
سراج الدین حقانی بطور سربراہ
اپنی علالت کے باعث جلال الدین حقانی نے اپنے شدت پسند نیٹ ورک کی قیادت اپنے بیٹے سراج الدین حقانی کو سونپ دی تھی۔ سراج الدین افغان طالبان کا نائب کمانڈر بھی ہے۔ سن دو ہزار پندرہ میں ایسی اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ جلال الدین حقانی انتقال کر گئے تھے تاہم طالبان اور حقانی خاندان نے ان خبروں کی تردید کر دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سراج الدین حقانی کون ہے؟
حقانی نیٹ ورک کے موجودہ کمانڈر سراج الدین حقانی نے اپنا بچپن میران شاہ میں بسر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے پشاور کے نواح میں واقع حقانیہ مدرسہ سے تعلیم حاصل کی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سراج الدین جنگی امور کا ماہر بھی ہے۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ سراج الدین اپنے والد جلال الدین کے مقابلے میں زیادہ انتہا پسندانہ نظریات کا مالک ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انس حقانی بطور قیدی
جلال الدین حقانی کے متعدد بیٹوں میں سے ایک کا نام انس حقانی ہے، جو ان کی متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والی بیوی سے پیدا ہوا تھا۔ انس حقانی اس وقت افغان حکومت کی قید میں ہے اور اسے ایک مقامی عدالت نے سزائے موت سنا رکھی ہے۔ حقانی نیٹ ورک نے خبردار کر رکھا ہے کہ اگر انس کو سنائی گئی سزا پر عمل درآمد کیا گیا، تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/National Directorate of Security
یہ گروہ ہے کتنا بڑا؟
مختلف اندازوں کے مطابق اس گروہ کے جنگجوؤں کی مجموعی تعداد تین تا دس ہزار بنتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس گروہ کی زیادہ فنڈنگ خلیجی ممالک کی طرف سے کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ نیٹ ورک مختلف مجرمانہ کارروائیوں سے بھی اپنے لیے مالی وسائل جمع کرتا ہے، جن میں اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک اور دیگر شدت پسند گروہ
حقانی نیٹ ورک کے افغان طالبان کے ساتھ روابط تو واضح ہیں لیکن یہ جنگجو گروہ مختلف دیگر دہشت گرد گروپوں سے بھی دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔ ان میں القاعدہ نیٹ ورک، تحریک طالبان پاکستان، ازبکستان کی اسلامی تحریک اور پاکستان میں قائم ممنوعہ لشکر طیبہ جیسی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ جلال الدین حقانی کے اسامہ بن لادن سے تعلقات تو تھے ہی لیکن وہ القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظواہری سے بھی روابط رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Ausaf Newspaper
پاکستان سے راوبط
امریکی اور افغان حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی مدد حاصل ہے۔ تاہم پاکستانی حکومت اور فوج دونوں اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ واشنگٹن حکومت کا اصرار ہے کہ پاکستانی حکومت کو ملکی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں قائم اس دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف مؤثر کارروائی کرنا چاہیے۔