بن لادن کی ہلاکت سے پاکستان میں انتہا پسندی میں کمی ہوئی؟
2 مئی 2021جلی ہوئی گھاس پر تعمیراتی ساز و سامان کے کوڑے کے بیچ بچے کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ اس جگہ دنیا کے مطلوب ترین شخص کا گھر تھا۔ ٹھیک دس سال قبل دو مئی کو ایبٹ آباد میں 'آپریشن جیرونیمو‘ نامی ایک خفیہ کارروائی کے دوران امریکی فوجی کمانڈوز نے اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس فوجی آپریشن کی بازگشت دنیا بھر میں محسوس کی گئی تھی اور ساتھ ہی پاکستان کے بارے میں کئی تضادات بھی عیاں ہو گئے تھے۔ مثلاﹰ ایک ایسا ملک جو خود بھی دہشت گردی سے بری طرح متاثر تھا لیکن جہاں القاعدہ اور اس کے اتحادی طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں دی گئی تھیں۔ القاعدہ کا سربراہ اسامہ بن لادن کم از کم پانچ سال ایبٹ آباد میں ایک ایسے بڑے گھر میں رہائش پذیر رہا تھا، جو پاکستان کی ایک مشہور فوجی اکیڈمی سے صرف دو کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔
امریکا کے اس فوجی آپریشن نے پاکستان کے لیے بہت مشکل پیدا کر دی تھی۔ پاکستانی حکام یہ تسلیم نہیں کرنا چاہتے تھے کہ بن لادن وہاں پناہ لیے ہوئے تھا اور ایسا کرنے سے ملکی انٹیلیجنس سروسز کی قابلیت پر بہت سے سوال اٹھائے جاتے۔ وہ یہ مان سکتے تھے کہ دنیا کا مطلوب ترین شخص ان کی مرضی سے پاکستان میں رہائش پذیر تھا، لیکن ایسا کرنے سے وہ امریکا کے سامنے مجرم قرار پاتے۔ پاکستانی حکام نے یہ تسلیم کر لیا کہ انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں رہائش اختیار کیے ہوئے تھا۔
پاکستانی عوام پہلے ہی نائن الیون کے دہشت گردانہ حلموں کے بعد افغان جنگ اور دہشت گردی کی صورت میں اس کے پاکستان پر اثرات سے تنگ تھے۔ اس صورت میں امریکی آپریشن کے باعث عوام میں امریکا مخالف جذبات مزید بھڑک سکتے تھے اور ایسا کسی حد تک ہوا بھی۔ تاہم اسامہ بن لادن کی ایک شخصیت کے طور پر مقبولیت کافی کم ہو چکی تھی۔ معروف صحافی رحیم اللہ یوسف زئی کہتے ہیں، ''ایک وقت تھا جب لوگ اپنے بچوں کا نام اسامہ رکھتے تھے۔‘‘
لیکن بن لادن کی ہلاکت نے پاکستان میں شدت پسندی اور قدامت پسند مذہبی جماعتوں کو پنپنے سے نہیں روکا بلکہ ان کو مزید مضبوط کیا۔ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد اگلے تین برسوں میں تحریک طالبان پاکستان سمیت کئی دہشت گرد گروپوں نے پاکستان میں سینکڑوں حملے کیے اور پاکستانی قبائلی علاقوں میں اپنی موجودگی بڑھا دی۔
سن 2014ء میں فوجی آپریشن کے باعث کسی حد تک تشدد میں کمی آئی لیکن اب پھر دہشت گردی کے کچھ حالیہ واقعات نے یہ خدشات بڑھا دیے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گرد گروہ ایک مرتبہ پھر متحد ہو رہے ہیں۔ معروف صحافی حامد میر کے خیال میں پاکستان کو اب القاعدہ سے کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے۔ حامد میر کے مطابق کچھ لوگ اب بھی القاعدہ کے بانی کو آزادی کی جنگ لڑنے والے جنگجو کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن بہت سے لوگوں کی رائے میں اسامہ بن لادن ایک برا شخص تھا جو ہزاروں انسانوں کی موت کی وجہ بنا۔
ایبٹ آباد میں بھی بن لادن کے حوالے سے آراء مختلف اور متضاد ہیں۔ بن لادن کی وہ رہائش گاہ جسے 2012ء میں مسمار کر دیا تھا، اس کے قریب ہی رہنے والے نعمان خٹک کہتے ہیں، ''کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اسامہ بن لادن ایک اچھا شخص تھا۔ لیکن کچھ لوگ اسے بہت برا بھی سمجھتے ہیں۔‘‘
ب ج / م م (اے ایف پی)