بن لادن کی ہلاکت، ’پاکستانی فوجی حکام کو سب پتہ تھا‘
11 مئی 2015تحقیقاتی رپورٹنگ کے حوالے سے عالمی شہرت رکھنے والے سیمور ہیرش کا دَس ہزار تین سو چھپن الفاظ پر مشتمل یہ مضمون اتوار دَس مئی کو ’لندن ریویو آف بُکس‘ میں شائع ہوا ہے۔ ہیرش نے اُسامہ کو ہلاک کرنے کے آپریشن سے متعلق وائٹ ہاؤس کی کہانی کو رَد کرتے ہوئے اور اُنیس ویں صدی کے تخیلاتی کہانیوں کے لیے مشہور ایک برطانوی مصنف کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’ہو سکتا ہے، وائٹ ہاؤس کی بیان کردہ کہانی لیوئس کیرل نے لکھی ہو‘۔ اس آپریشن کے سلسلے میں امریکی حکومت کا موقف یہ ہے کہ بن لادن کے پیغام رساں کا تعاقب کرتے ہوئے ایبٹ آباد میں اُس کے کمپاؤنڈ کا پتہ چلایا گیا اور پھر ایک خفیہ کمانڈو آپریشن کے ذریعے اُس تک پہنچا گیا۔
لندن سے جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے ایک تازہ جائزے کے مطابق وائٹ ہاؤس کے سرکاری بیان کے برعکس سیمور ہیرش کا دعویٰ یہ ہے کہ پاکستانی فوج اور اُس کے خفیہ ادارے کے چوٹی کے افسران کو اس آپریشن کے بارے میں پیشگی علم تھا۔ ہیرش نے یہ باتیں ایک ریٹائرڈ پاکستانی انٹیلیجنس اہلکار اور مختلف امریکی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتائی ہیں۔
اس مضمون میں مزید کہا گیا ہے کہ ایک اور سابق سینیئر پاکستانی انٹیلیجنس افسر کی وساطت سے امریکا کو پہلے سے اُسامہ بن لادن کے ٹھکانے کا پتہ چل چکا تھا۔ سیمور ہیرش کے مطابق اس افسر نے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے سے رابطہ قائم کیا تھا اور یہ کہ بن لادن کے بارے میں معلومات کے بدلے اُسے نہ صرف پچیس ملین ڈالر ادا کیے گئے بلکہ اُسے امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں محفوظ ٹھکانا بھی فراہم کر دیا گیا۔
ہیرش کی اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ پاکستانی فوج کے چوٹی کے افسران نے اس امر کو یقینی بنانے کا اہتمام کیا تھا کہ جب امریکا کی خصوصی فورسز پر مشتمل ٹیم کے دو ہیلی کاپٹر افغانستان سے سرحد عبور کر کے ایبٹ آباد میں اُسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ تک پہنچیں تو خطرے کا کوئی انتباہ جاری نہ کیا جائے۔
پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کی قیادت کے ساتھ قریبی روابط رکھنے والے ایک پاکستانی کے مطابق ’ایسا کیا جانا بہت ضروری تھا۔ ذاتی مالی فائدے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے کہ دوسری صورت میں ساری امریکی امداد منقطع کر دی جاتی‘۔
رپورٹ میں اس پاکستانی کے حوالے سے مزید بتایا گیا ہے کہ ’اس سودے بازی کا مقصد نہ صرف پہلے سے آ رہی امریکی امداد کے تسلسل کو یقینی بنانا تھا بلکہ آئی ایس آئی کے اُس وقت کے سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا کو یہ بھی بتایا گیا تھا کہ امریکا سے مزید امداد اور مراعات بھی مل سکیں گی‘۔
رپورٹ کے مطابق بن لادن درحقیقت 2006ء سے اس کمپاؤنڈ میں پاکستان کی تحویل میں تھا اور ایک ذریعے کے مطابق اُس کی صحت اس حد تک خراب ہو گئی تھی کہ وہ عملاً ایک اپاہج شخص تھا۔
واضح رہے کہ 1990ء کے عشرے میں آئی ایس آئی کے سربراہ رہنے والے اسد درانی اپنے ایک انٹرویو میں پہلے ہی یہ بات کہہ چکے ہیں کہ ’ممکنہ طور پر‘ پاکستانی انٹیلیجنس کو پتہ تھا کہ اِس امریکی آپریشن سے پہلے بن لادن کا ٹھکانا کہاں تھا۔
اسد درانی نے الجزیرہ سے باتیں کرتے ہوئے کہا تھا:’’اگر اُسامہ بن لادن جیسا کوئی آپ کی دسترس میں ہو تو آپ اُسے سیدھے سیدھے امریکا کے حوالے نہیں کر دیں گے۔‘‘