1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بن لادن کے آخری ایام، نئے انکشافات

8 مارچ 2012

بریگیڈیئر (ر) شوکت قادر کے مطابق بن لادن کے آخری ایام کے دوران اس کی بیویوں کے باہمی شکوک و شبہات بڑھ گئے تھے۔ وہ تیسری منزل پر اپنی چہیتی اہلیہ کے ساتھ قیام پذیر تھا۔ مسئلہ اس کی پہلی بیوی کے آنے کے شروع ہوا۔

تصویر: AP

پاکستانی فوج کے ایک سابق بریگیڈیئر شوکت قادر نے اپنی ایک رپورٹ میں اسامہ بن لادن کے آخری ایام کی منظر کشی کی ہے۔ انہوں نے کئی ماہ تک اس موضوع پر تحقیق کی اور انہیں وہ دستاویزات دیکھنے کا بھی موقع ملا ہے، جو پاکستانی خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے اسامہ بن لادن کی سب سے چھوٹی بیوی سے پوچھ گچھ کے بعد تیار کی تھیں۔ دو مئی کے واقعے کے بعد شوکت قادر کو ایبٹ آباد میں بن لادن کی آخری رہائش گاہ میں بھی جانے کا موقع ملا۔ اس دوران انہوں نے تصاویر بھی اتاریں۔ یہ تصاویر خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بھی دکھائی گئیں۔ اس میں ایک تصویر میں مرکزی سیڑھیوں پر خون پھیلا ہوا تھا۔ ایک اور تصویر میں کھڑکیاں دکھائی دے رہی ہیں، جنہیں لوہے کی باڑ لگا کر محفوظ بنایا گیا ہے۔

گھر کا نقشہ

لادن مکان کی تیسری منزل پر اپنی سب سے چھوٹی اور چہیتی اہلیہ کے ساتھ رہتا تھا۔ خاندان کے بقیہ افراد اس عمارت کے مختلف حصوں میں پھیلے ہوئے تھے، جس میں 2 مئی2011ء کو اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا گیا۔ بریگیڈیئر (ر) شوکت قادر نے اس رپورٹ کی تیاری میں پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی تفتیشی دستاویزات کے علاوہ القاعدہ کے زیر حراست ارکان کے انٹرویوز سے بھی مدد حاصل کی ہے۔ بن لادن 2005ء سے ایبٹ آباد کے اس تین منزلہ مکان میں رہ رہا تھا۔ اس گھر میں کل 28 افراد تھے، ان میں اسامہ بن لادن، اس کی تین بیویاں، آٹھ بچے اور پانچ پوتے پوتیاں تھے۔ بن لادن مکان کی تیسری منزل پر اپنی سب سے کم عمر اہلیہ امل احمد عبدالفتح السدا کے ساتھ رہائش پذیر تھا۔ اس کے بچوں کی عمریں 24 سے تین سال کے درمیان تھیں۔ اس کا سب سے بڑا بیٹا خالد ( 24) دو مئی کے آپریشن میں مارا گیا تھا۔ اس آپریشن میں بن لادن کا پیغام رساں اور اس کا بھائی بھی مارے گئے تھے اور اُن کی بیویاں اور بچے بھی اس مکان میں رہائش پذیر تھے۔ 54 سالہ بن لادن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے معدے یا گردے کی شکایت تھی اور شاید اسی وجہ سے وہ عمر سے بڑا دکھائی دینے لگا تھا۔ ساتھ ہی اس کی نفسیاتی حالت کے بارے میں بھی شکوک و شبہات موجود تھے۔

یہ گھر اس انداز میں تعمیر کیا گیا تھا کہ حملے کی صورت میں وہاں سے بچ نکلنے کا کوئی امکان نہیں تھا، بریگیڈیئر (ر) شوکت قادرتصویر: picture-alliance/abaca

بن لادن، امل اور خیرہ

کوہاٹ میں گیارہ ستمبر کا منصوبہ ساز خالد شیخ محمد بھی ایک مرتبہ اس سے ملاقات کرنے آیا تھاتصویر: AP

یمنی نژاد امل کی شادی 1999ء میں بن لادن سے ہوئی تھی اور شادی کے وقت وہ 19برس کی تھی۔ بن لادن کی ایک اور اہلیہ سہام صابر بھی اسی منزل پر ایک الگ کمرے میں رہتی تھی اور یہ کمرہ کمپیوٹر روم کے طور بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ بریگیڈیئر (ر) شوکت قادر کے بقول امل نے آئی ایس آئی کو بتایا کہ 2011ء میں بن لادن کی سب سے بڑی سعودی نژاد اہلیہ خیرہ صابر کی آمد کے بعد سے گھریلو معاملات میں گڑ بڑ پیدا ہونا شروع ہوئی۔ خیرہ صابر نے دورانِ تفتیش خود بھی تسیلم کیا کہ اس کا اپنا رویہ بھی بہت جارحانہ تھا۔ 2001ء میں خیرہ اپنے شوہر بن لادن کے دیگر رشتہ داروں کے ساتھ افغانستان سے ایران چلی گئی تھی۔ ایران میں اسے نظر بند کر دیا گیا تھا تاہم بعد میں تہران حکومت نے پاکستان سے ایک ایرانی سفارت کار کی رہائی کے بدلے اُسے سفر کی اجازت دے دی تھی۔ اس ایرانی سفارت کار کو شمالی علاقہ جات میں گرفتار کیا گیا تھا۔ امل نے دوران تفتیش بتایا کہ خیرہ فروری اور مارچ 2011ء کے درمیانی عرصے میں ایبٹ آباد پہنچی تھی۔ اس دوران بن لادن کا بڑا بیٹا خالد خیرہ سے بار بار پوچھتا رہا کہ وہ وہاں کیوں آئی ہے۔ امل کے بقول خیرہ نے جواب دیا کہ اسے اپنے شوہر کے لیے ایک آخری خدمت انجام دینی ہے۔ اس پر خالد نے فوراً ہی اپنے باپ کو بتا دیا کہ خیرہ اسے دھوکہ دینا یا چھوڑنا چاہتی ہے۔ شوکت قادر کے بقول ایسے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں کہ خیرہ صابر نے اسامہ بن لادن کی ہلاکت میں کوئی کردار ادا کیا۔

بن لادن کہاں کہاں روپوش رہا

امل نے بتایا ہے کہ بن لادن افغانستان سے فرار ہونے کے بعد پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں زیادہ عرصہ قیام کرنا نہیں چاہتا تھا۔ 2002ء میں وہ کچھ عرصہ کوہاٹ کے قریب ایک علاقے میں روپوش رہا۔ اس دوران گیارہ ستمبر کا منصوبہ ساز خالد شیخ محمد بھی ایک مرتبہ اس سے ملاقات کرنے آیا تھا، جسے 2003 ء میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ 2004 ء میں وہ اور خاندان کے کچھ افراد سوات کے قریب شانگلہ منتقل ہو گئے تھے۔ تفتیشی دستاویزات کے مطابق 2004ء کے آخر میں یہ لوگ ہری پور اور 2005ء کے موسم گرما میں ایبٹ آباد کے اس قلعہ نما مکان میں آ گئے، جس کی تیسری منزل پر بن لادن امریکی آپریشن میں مارا گیا۔ اسامہ کے کچھ اہل خانہ کا خیال ہے کہ اس کی پہلی بیوی اس کا ساتھ چھوڑنا چاہتی تھی۔

آئی ایس آئی نے کوئی تبصرہ نہیں کیا

پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے بریگیڈیئر (ر) شوکت قادر کی اس رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ بریگیڈیئر (ر) شوکت قادر کے بقول فوج میں ان کے ایک دوست نے انہیں بن لادن کی زیر حراست اہلیہ امل سے کی جانے والی تفتیشی رپورٹ تک رسائی دی تھی۔ قادر کے بقول انہوں نے بن لادن کے مکان کا چار مرتبہ دورہ کیا۔ ان کے بقول اس گھر میں فرار ہونے کا کوئی خفیہ راستہ نہیں بنایا گیا تھا۔ کوئی انتباہی نظام نصب نہیں تھا اور نہ ہی کوئی تہہ خانہ بنایا گیا تھا۔ ان کے بقول ’’یہ گھر اس انداز میں تعمیر کیا گیا تھا کہ حملے کی صورت میں وہاں سے بچ نکلنے کا کوئی امکان نہیں تھا‘‘۔

رپورٹ : عدنان اسحاق

ادارت : امجد علی

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں