1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
ٹیکنالوجیامریکہ

بوئنگ کے اسپیس کرافٹ کی خلا بازوں کے بغیر زمین پر واپسی

7 ستمبر 2024

امریکی کمپنی بوئنگ کے خلائی جہاز ’اسٹار لائنر‘ میں دو خلا باز بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پہنچے تھے۔

اسٹار لائنر بین الاقوامی وقت کے مطابق آج صبح تقریباﹰ چار بجے امریکی ریاست نیو میکسیکو کے وائٹ سینڈز اسپیس ہاربر پہنچا
اسٹار لائنر بین الاقوامی وقت کے مطابق آج صبح تقریباﹰ چار بجے امریکی ریاست نیو میکسیکو کے وائٹ سینڈز اسپیس ہاربر پہنچاتصویر: Boeing/AP/picture alliance

امریکی کمپنی بوئنگ کا خلائی جہاز 'اسٹار لائنر‘ آج بروز ہفتہ ان خلا بازوں کے بغیر ہی زمین پر واپس پہنچ گیا، جو اس میں بین الاقوامی خلائی اسٹیشن یا آئی ایس ایس پہنچے تھے۔

امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا کے مطابق ان خلا بازوں کی اسٹار لائنر میں واپسی خطرے سے خالی نہ ہوتی۔

بوئنگ کے اس اسپیس کرافٹ کی خلا میں روانگی کئی سال کی تاخیر کے بعد رواں برس جون میں ممکن ہو پائی تھی۔ اس کو خلا میں ایک ہفتے کے لیے تجرباتی بنیادوں پر بھیجا گیا تھا تاکہ اس بات کی تصدیق کی جا سکے کہ اس کو عملے کو آئی ایس ایس تک لے جانے اور وہاں سے ان کی واپسی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔

امریکی کمپنی بوئنگ کا خلائی جہاز 'اسٹار لائنر‘تصویر: NASA/AFP

تاہم اس مشن میں آئی ایس ایس کی جانب سفر کے دوران ہی اسٹار لائنر کے 'تھرسٹر‘ میں خرابی پیدا ہونے اور اس میں سے ہیلیم گیس لیک ہونے کے بعد ناسا نے فیصلہ کیا کہ اس میں خلا بازوں کی بحفاظت واپسی کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔ اب اس میں روانہ ہونے والے خلا بازوں بوچ ولمور اور سنی ولیمز کو ایلون مسلک کی کمپنی اسپیس ایکس کے بنائے گئے خلائی جہاز میں اگلے سال فروری میں واپس لایا جائے گا۔

ان دونوں کے بغیر اسٹار لائنر بین الاقوامی وقت کے مطابق آج صبح تقریباﹰ چار بجے امریکی ریاست نیو میکسیکو کے وائٹ سینڈز اسپیس ہاربر پہنچا۔ اور آئی ایس ایس سے واپسی کا یہ سفر اس نے تقریباﹰ چھ گھنٹے میں طے کیا۔

ناسا نے خلا بازوں کو آئی ایس ایس تک لے جانے اور وہاں سے ان کی واپسی کے لیے خلائی جہاز بنانے کے کانٹریکٹ 2014ء میں تب دیے تھے، جب اس کے اسپیس شٹل پروگرام کے اختتام پر اس کو اس حوالے سے روسی راکٹوں پر انحصار کرنا پڑا تھا۔

م ا/ا ب ا (اے ایف پی)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں