ترکی کے ساحلی شہر بودرم کے قریب مہاجرین سے بھری ایک کشتی کی غرقابی کے ایک واقعے میں کم از کم دو افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ یہ کشتی بودرم کے ساحل پر پہنچنے ہی والی تھی۔
اشتہار
ترک ساحلی محافظین نے بتایا ہے کہ حادثے کا شکار ہونے والی کشتی ساحل سے صرف پچاس میٹر کی دوری پر ہی ڈوب گئی۔ اس دوران سترہ افراد کو امدادی کارروائیوں کے دوران بچا لیا گیا جبکہ تین افراد تیرتے ہوئے خشکی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ بعد ازاں ان میں سے دو تارکین وطن ہسپتال میں ہلاک ہو گئے۔
ترک حکام کی جانب سے جاری کی جانے والی ان تفصیلات میں تارکین وطن کی شناخت واضح نہیں کی گئی ہے۔ کوسٹ گارڈ نے مزید بتایا کہ ممکنہ لاپتہ افراد کی تلاش کا کام بدستور جاری ہے۔ اس بیان میں حادثے کی وجوہات بھی نہیں بتائی گئی ہیں۔
ترکی یورپ جانے کے خواہش مند افراد کا ایک مرکز ہے۔ مشرقِ وسطیٰ اور ایشیا سے یورپی سرزمین پر قدم رکھنے کے لے زیادہ تر افراد ترک ساحلوں سے یونانی جزیروں تک پہنچنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کو کم کرنے کے لیے 2016ء میں ترکی اور یورپی یونین کے مابین ایک معاہدہ بھی طے پایا تھا۔ اس معاہدے کے بعد ترکی کے ذریعے یورپی یونین پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی ہے، تاہم اب بھی کچھ مہاجرین اس راستے کا استعمال کرتے ملتے ہیں۔
دوسری جانب بحیرہ روم کے راستے اٹلی پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 2015ء یہ تعداد دس لاکھ سے کچھ زیادہ تھی، جو 2016ء میں تقریباً پونے چار لاکھ رہی جبکہ 2017ء میں بحیرہ روم پار کر کے اٹلی پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد کم ہو کر ایک لاکھ بہتر ہزار کے لگ بھگ رہی۔
دریائے ایورو، مہاجرین کے لیے موت کی گزرگاہ
ترکی اور یونان کے درمیان دریائے ایورو پار کر کے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے ہزاروں مہاجرین اس دریا میں ڈوب کر ہلاک ہوئے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کی ماریانہ کراکولاکی نے الیگزندرو پولی میں مہاجرین کے ایک مردہ خانے کا دورہ کیا۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
خطرناک گزرگاہ
دریائے ایورو ترکی اور یونان کے درمیان وہ خطرناک گزرگاہ ہے جسے برسوں سے ہزارہا تارکین وطن نے یورپ پہنچنے کی خواہش میں عبور کرتے ہوئے اپنی جانیں گنوا دیں۔ اس حوالے سے یہ بدنام ترین گزرگاہ بھی ہے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
مردہ خانہ
رواں برس اب تک ترک یونان سرحد پر اس دریا سے انتیس افراد کی لاشیں ملی ہیں۔ مرنے والے مہاجرین کی بڑھتی تعداد کے باعث فلاحی تنظیم ریڈ کراس نے ایک سرد خانہ عطیے میں دیا ہے۔ اس مردہ خانے میں فی الحال پندرہ لاشیں موجود ہیں۔ دریا سے ملنے والی آخری لاش ایک پندرہ سالہ لڑکے کی تھی۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
مرنے والوں کی تلاش
دریائے ایورو کے علاقے میں گشت کرنے والی انتظامیہ کی ٹیمیں یا پھر شکاری اور مچھیرے ان لاشوں کو دریافت کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی لاش ملتی ہے، سب سے پہلے پولیس آ کر تفتیش کرتی ہے اور تصاویر بناتی ہے۔ پھر اس لاش کو مردہ خانے لے جایا جاتا ہے جہاں طبی افسر پاؤلوس پاؤلیدیس اس سے ملنے والی باقیات اور ڈی این اے کی جانچ کرتے ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
موت کا سبب
پاؤلوس پاؤلیدیس کا کہنا ہے کہ مہاجرین بنیادی طور پر ڈوب کر ہلاک ہوتے ہیں۔ پاؤلیدیس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ستر فیصد ہلاکتوں کا سبب پانی میں رہنے کے سبب جسمانی درجہ حرارت کا معمول سے نیچے ہو جانا تھا۔ پاؤلیدیس کے مطابق حال ہی میں ٹرینوں اور بسوں کے نیچے کچلے جانے سے بھی اموات واقع ہوئی ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
ذاتی اشیا
پاؤلوس پاؤلیدیس مہاجرین کی لاشوں سے ملنے والی ذاتی نوعیت کی اشیا کو پلاسٹک کی تھیلیوں میں سنبھال کر رکھتے ہیں تاکہ لاش کی شناخت میں مدد مل سکے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
مشکل مگر لازمی فرض منصبی
مردہ مہاجرین سے ملنے والی نجی استعمال کی چیزوں کو پیک کرنا ایک بہت تکلیف دہ کام ہے۔ پاؤلوس کہتے ہیں کہ دریا سے ملنے والی ذاتی اشیا زیادہ تر ایسی ہوتی ہیں جنہیں پانی خراب نہیں کر سکتا۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
گمشدہ انگوٹھیاں
مہاجرین کی لاشوں سے ملنے والی زیادہ تر اشیاء دھات کی ہوتی ہیں جیسے انگوٹھیاں۔ گلے کے ہار اور بریسلٹ وغیرہ۔ کپڑے اور دستاویزات مثلاﹰ پاسپورٹ وغیرہ پانی میں تلف ہو جاتے ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
موت اور مذہب
پاؤلوس کے بقول ایسی اشیا بھی دریائے ایورو سے ملتی ہیں جو مرنے والے کے مذہب کے حوالے سے آگاہی دیتی ہیں۔ ایسی چیزوں کو حفاظت سے رکھ لیا جاتا ہے اور رجوع کرنے کی صورت میں اُس کے خاندان کو لوٹا دیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
ابدی جائے آرام
اگر کسی مرنے والے مہاجر کی شناخت ہو جائے تو اس کی لاش اس کے لواحقین کو لوٹا دی جاتی ہے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو یونانی حکام ان لاشوں کی آخری رسوم اُن کے مذہب کے مطابق ادا کرانے کا انتظام کرتے ہیں۔