بودھ انتہا پسندوں کے حملوں سے سری لنکا میں مسلم شدت پسندی کا خطرہ
12 جولائی 2014رؤف حکیم کے بقول یہ عین ممکن ہے کہ ان مسلح حملوں کے باعث مقامی مسلمان یہ محسوس کرنے لگیں کہ حالات انہیں بنیاد پرستانہ مذہبی ذہنیت اختیار کرنے پر مجبور کر رہے ہیں اور یوں وہ مدد کے لیے غیر ملکی اسلام پسند گروپوں کی طرف دیکھنے لگیں۔
سری لنکن وزیر انصاف نے، جو مقامی مسلمانوں کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ بھی ہیں، کولمبو میں غیر ملکی صحافیوں کو بتایا کہ کسی بھی معاشرے میں اگر کسی بھی مذہبی اقلیت یا سماجی برادری کو اس طرح دھکیل کر دیوار کے ساتھ لگا دینے کی کوشش کی جائے گی، تو لازمی سی بات ہے کہ اس میں عدم اطمینان اور ناامیدی میں اضافہ ہو گا اور ’شدت پسند بیرونی طاقتوں‘ کو ایسی کسی بھی برادری کے ارکان میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کے لیے زمین ہموار ملے گی۔
خبر ایجنسی روئٹرز نے سری لنکا میں مسلمانوں پر حملوں کے حالیہ واقعات کی ایک مثال دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جون کے مہینے میں ملک کے جنوب میں غیر ملکی سیاحوں میں بہت مقبول دو ساحلی قصبوں میں اکثریتی آبادی سے تعلق رکھنے والے بدھ مت کے پیروکاروں اور مسلمانوں کے مابین خونریزی کے واقعات میں کم از کم تین افراد ہلاک اور 75 شدید زخمی ہو گئے تھے۔ اس بدامنی کے دوران بودھ شدت پسندوں نے مسلمانوں کے کئی گھر بھی نذر آتش کر دیے تھے۔
سری لنکا کی مجموعی آبادی میں مسلم اقلیت کا تناسب 10 فیصد کے قریب ہے۔ لیکن وہاں گزشتہ دو برسوں کے دوران مسلم برادری کے ارکان پر مسلح حملوں میں واضح اضافہ ہو چکا ہے۔ یہ صورت حال جنوبی مشرقی ایشیائی ملک میانمار کے حالات سے بہت مماثلت رکھتی ہے، جہاں پچھلے دو تین برسوں میں اکثریتی بودھ آبادی سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں کے روہنگیا نسل کی مسلم اقلیتی آبادی کے افراد پر خونریز حملوں میں بہت اضافہ ہو چکا ہے۔
اس تناظر میں سری لنکن مسلم اقلیت کے نمایاں ترین رہنما رؤف حکیم نے یہ بھی کہا کہ سری لنکا کی 20 ملین کی آبادی میں بدھ مت کے پیروکاروں کی شرح 70 فیصد سے زائد ہے اور مذہبی اکثریت کو اپنی کارروائیوں سے مذہبی اقلیت میں اس سوچ کا سبب نہیں بننا چاہیے کہ سری لنکن مسلمان اپنے ہی ملک میں غیر محفوظ ہیں۔
رؤف حکیم نے غیر ملکی صحافیوں کو بتایا کہ سری لنکا میں جس طرح کے واقعات پیش آ رہے ہیں، وہ حقیقی معنوں میں بہت پریشان کن ہیں اور یہ مسئلہ اب ایک ’اصلی ٹائم بم‘ بن چکا ہے۔
اسلام اور مسلمانوں سے خوف
سری لنکا میں صدر مہیندا راجا پاکسے کی حکومت پر بین الاقوامی برادری کی طرف سے یہ الزام لگا کر تنقید کی جاتی ہے کہ کولمبو حکومت نے آلُوتھگاما اور بیرُوویلا کے ساحلی قصبوں میں خونریزی پر اپنے ردعمل میں زیادہ سختی سے کام نہیں لیا تھا۔ یہی بات وزیر انصاف حکیم نے بھی کہی۔
انہوں نے کہا کہ سری لنکا میں اقلیتی مسلمانوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کے لیے ’مغربی دنیا میں پائے جانے والے اسلام اور مسلمانوں سے خوف کی نقل کی جا رہی ہے اور اس سوچ کو مقامی نوعیت کے معمولی رد و بدل کے ساتھ اپنایا جا رہا ہے۔‘‘
سری لنکا میں بودھ شہریوں کے شدت پسند گروپ کا نام بودُو بالا سینا یا BBS ہے، جس کا مطلب ہے، ’بودھ پاور فورس‘۔ 15 جون کے مذہبی فسادات میں یہی شدت پسند گروپ ملوث تھا۔ اس گروپ کا سربراہ گناناسارا نامی ایک سخت گیر بودھ مذہبی رہنما ہے، جس کا دعویٰ ہے کہ سری لنکن حکام قومی سلامتی کی وجوہات کی بناء پر ملک میں مسلم انتہا پسندوں کی وجہ سے پائے جانے والے مبینہ خطرات پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس دعوے سے قطع نظر کئی غیر جانبدار مبصرین کا کہنا ہے کہ سری لنکا میں مسلم اور مسیحی اقلیتوں کے خلاف بہت منظم خونریزی کو بظاہر ریاست کی غیر اعلانیہ پشت پناہی حاصل ہے کیونکہ ابھی تک ایسے گزشتہ حملوں میں ملوث افراد کو کوئی سزا نہیں دی جا سکی۔ کولمبو حکومت اس بارے میں اپنی طرف سے حملہ آوروں کی پشت پناہی یا ان کے ساتھ کسی بھی خاموش رضامندی کی تردید کرتی ہے۔