میانمار کی ریاست راکھین میں بدھ مت کے پیرو کاروں اور روہنگیا مسلمانوں کے درمیان شادیاں شجر ممنوعہ ہیں اور اگر ایسا کوئی رشتہ قائم ہو بھی جائے تو شادی شدہ جوڑے کی زندگی کا ہر پل خوف کے سائے میں گزرتا ہے۔
اشتہار
ستارہ اب بھی خواب میں اپنے مسلمان شوہر کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے میانمار میں ساحل سمندر پر واقع اپنے گاؤں کی گلیوں سے گزرتی ہے جہاں وہ پلی بڑھی تھی۔ کبھی وہ ایسے خواب بھی دیکھتی ہے کہ وہ دونوں پرانے دوستوں اور رشتہ داروں سے مل رہے ہیں اور گھر والوں کے ساتھ مل کر کھانا کھا رہے ہیں۔ اور بعض اوقات وہ خود کو اپنے شوہر کے ساتھ خلیج بنگال کے نیم گرم پانیوں میں پاؤں ڈالے دیکھتی ہے۔
لیکن جاگتی آنکھوں سے دیکھے جانے والے حقائق بے حد تلخ ہیں۔ بدھ مذہب سے تعلق رکھنے والی ستارہ میانمار میں رہتے ہوئے یہ سب نہیں کر سکتی اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اُس کا شوہر نسلاﹰ روہنگیا مسلمان ہے اور راکھین میں اُن کی محبت پروان نہیں چڑھ سکتی۔
یہاں دو مختلف مذاہب اور برادری والے افراد کے درمیان شادیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یوں بھی ایسی شادی کرنا اس طرح کی معاشرت میں خطرے سے خالی نہیں جہاں اگست سن 2016 سے میانمار کی سکیورٹی فورسز کے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف آپریشن کے باعث سات لاکھ تیس ہزار روہنگیا ملک چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
میانمار کی ریاست راکھین کے دارلحکومت سِتوے کی رہائشی ستارہ نے وہاں کسی کو نہیں بتایا ہوا کہ اُس نے ایک مسلمان سے شادی کی ہے۔ ستارہ کا کہنا ہے، ’’ اگر میں نے یہ بتا دیا تو مجھے مار دیا جائے گا اس لیے میں ہمیشہ محتاط رہتی ہوں۔ ‘‘
چوبیس سالہ ستارہ کا یہ خوف مبالغہ آرائی پر مبنی نہیں ہے۔ حالیہ مہینوں میں پولیس کی حفاظت میں راکھین واپس آنے والے روہنگیا مسلمان بھی بپھرے ہوئے مشتعل افراد کے حملوں میں مارے گئے۔
ستارہ بیوہ تھی جب وہ اپنے موجودہ شوہر محمد سے ملی۔ وہ راکھین کے ایک گاؤں کے بازار میں سبزیاں بیچنے آئی تھی۔ محمد قریب ہی ایک فارمیسی چلاتا تھا۔ انہوں نے ایک دوسرے سے فون نمبروں کا تبادلہ کیا اور باقاعدگی سے ملنے لگے۔ دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے پسندیدگی کے جذبات جاگ اٹھے۔
ستارہ کے گھر والوں کو پتہ چلا تو انہوں نے اسے مارا پیٹا اور گھر سے نکال دیا۔ سن 2013 میں ستارہ نے مذہب اسلام قبول کر لیا اور ایک سادہ سی تقریب میں اُس کی شادی محمد سے ہو گئی۔
محمد اپنی بیوی ستارہ کے لیے ویسا ہی سوچتا ہے جو ستارہ اُس کے لیے۔ محمد کے بقول،’’ وہ مجھے انسان سمجھتی ہے اور میں اسے۔ یہ بالکل آسان سی بات ہے۔ ‘‘
ایک روہنگیا سے شادی کر کے جہاں ستارہ کے لیے سیکیورٹی خدشات بڑھے ہیں وہیں اُسے راکھین میں رہنے والی اس مسلم اقلیت کی حالت زار کا صحیح اندازہ بھی ہوا ہے۔ خبر رساں ادارے اے پی سے بات کرتے ہوئے ستارہ کا کہنا تھا، ’’ یہ بالکل جہنم کی طرح ہے۔ اِن لوگوں کو کوئی امید نہیں۔ روہنگیا مسلمانوں کو یہاں طبّی سہولت تک حاصل نہیں۔ یہ ہر وقت خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ ‘‘
ستارہ کے بقول اُسے بھی اس طرح چھپ کر اور خوف میں رہنا برا لگتا ہے لیکن اس وجہ سے وہ اپنے شوہر کو چھوڑ نہیں سکتی۔ ستارہ کا کہنا ہے ،’’ روہنگیا کا مستقبل یہاں خراب ہے لیکن میں یہاں سے نہیں جاؤں گی۔ اپنے شوہر کے ساتھ یہاں رہنا ہی میری قسمت ہے۔‘‘
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
میانمار (برما) کے مغربی صوبے راكھین میں روہنگیا مسلمانوں کی آبادی تقریباﹰ دس لاکھ ہے۔ لیکن ان کی زندگیاں تشدد، امتیازی سلوک، بے بسی اور مفلسی سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ جانیے روہنگیا اقلیت کے بارے میں حقائق۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
کوئی ملک نہیں
روہنگیا خواتین، بچوں اور مردوں کا کوئی ملک نہیں ہے یعنی ان کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں۔ رہتے یہ ميانمار میں ہیں لیکن انہیں صرف غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر مانا جاتا ہے۔
تصویر: DW/C. Kapoor
سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا
میانمار کے اکثریتی بدھ مت افراد اور اس ملک کی سکیورٹی فورسز پر روہنگیا مسلمانوں کو نسلی تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ روہنگیا لوگوں کو کوئی بھی حقوق یا اختیار حاصل نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ دنیا کی وہ اقلیت ہے، جسے اس وقت سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
سفری پابندیاں
یہ لوگ نہ تو اپنی مرضی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پر جا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی سے کام کر سکتے ہیں۔ جن گھروں اور جھونپڑیوں میں یہ رہتے ہیں، انہیں کبھی بھی اور کسی بھی وقت خالی کرنے کو کہہ دیا جاتا ہے۔ میانمار میں ان لوگوں کی کہیں بھی سُنوائی نہیں ہوتی۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
کیا یہ بنگالی ہیں؟
یہ لوگ کئی دہائیوں سے راكھین صوبے میں رہ رہے ہیں لیکن وہاں کے بدھ مت لوگ انہیں "بنگالی" کہہ کر دھتكارتے ہیں۔ یہ لوگ جو بولی بولتے ہیں، ویسی بنگلہ دیش کے جنوبی علاقے چٹاگانگ میں بولی جاتی ہے۔ روہنگیا لوگ سنی مسلمان ہیں۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
پرخطر سفر
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 2012ء میں مذہبی تشدد کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد سے تقریباﹰ ایک لاکھ بیس ہزار روہنگیا مسلمان راكھین چھوڑ چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ سمندر میں کشتیاں ڈوبنے سے ہلاک بھی ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Pruksarak
اجتماعی قبریں
ملائیشیا اور تھائی لینڈ کی سرحد کے قریب روہنگیا افرادکی متعدد اجتماعی قبریں ملی ہیں۔ 2015ء میں جب غیرقانونی تارکین کے خلاف کچھ سختی کی گئی تو کشتیوں پر سوار سینکڑوں روہنگیا کئی دنوں تک سمندر میں پھنسے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Ismail
انسانی اسمگلنگ
روہنگیا اقلیت کی مجبوری کا فائدہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ مجبور لوگ اپنی جمع پونجی انہیں سونپ کر کسی محفوظ مقام کے لیے اپنی زندگی خطرے میں ڈالنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
تصویر: DW/C. Kapoor
بنگلہ دیش کی طرف نقل مکانی
میانمار سے ملحق بنگلہ دیش کے جنوبی حصے میں تقریباﹰ تین لاکھ روہنگیا باشندے رہتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں، جو میانمار سے جان بچا کر وہاں پہنچے ہیں۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
پناہ حاصل کرنا آسان نہیں
ایسے روہنگیا کم ہی ہیں، جنہیں بنگلہ دیشی حکومت مہاجرین کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ یہ کشتیوں کے ذریعے بنگلہ دیش میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بنگلہ دیشی سکیورٹی فورسز انہیں زبردستی واپس میانمار کی طرف بھیج دیتی ہیں۔
تصویر: Reuters
جہاں بھی پناہ ملے
بنگلادیش کے علاوہ روہنگیا لوگ بھارت، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور چین جیسے ممالک کا بھی رخ کر رہے ہیں۔ یہ سبھی ممالک میانمار سے قریب ہیں۔
تصویر: DW/C. Kapoor
’امن کے لیے خطرہ‘
میانمار کی سکیورٹی فورسز کے مطابق چیک پوسٹوں پر ہونے والے حالیہ چند حملوں میں روہنگیا نسل کے باغی ملوث تھے۔ اس کے جواب میں روہنگیا باشندوں کے کئی دیہات کو جلا دیا گیا تھا۔ سکیورٹی فورسز کے مطابق یہ ’امن کے لیے خطرہ‘ ہیں۔
تصویر: Reuters/Soe Zeya Tun
انسانی حقوق کی تنظیموں کی اپیل
انسانی حقوق کے متعدد گروپ میانمار حکومت سے اپیل کر چکے ہیں کہ روہنگیا کو بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ملکی شہریت دی جائے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Yulinnas
قانونی رکاوٹ
میانمار میں روہنگیا افراد کو ایک نسلی گروپ کے طور پر تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ اس کی ایک وجہ 1982ء کا وہ قانون بھی ہے، جس کے مطابق شہریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی نسلی گروپ کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ 1823ء سے قبل بھی میانمار میں ہی تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Win
آنگ سان سوچی پر تنقید
نوبل امن انعام یافتہ اور حکمران پارٹی کی لیڈر آنگ سان سوچی نے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر تقریبا خاموشی اختیار کر رکھی ہے، جس پر انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس معاملے پر ملک کی طاقتور فوج سے اختلاف کرنا نہیں چاہتی۔