بورس جانسن اور ٹرمپ کے انتخابی مینیجر کے مبینہ رابطے افشاء
23 جون 2019
بورس جانسن اس وقت برطانیہ کی حکمران جماعت کی قیادت سنبھالنے کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔ ان کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے سابق مینیجر کے ساتھ مبینہ رابطوں کا انکشاف ہوا ہے۔
اشتہار
اسٹیو بینن سن 2016 کے امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے کمپین مینیجر تھے۔ اس کے علاوہ ایک انتہائی دائیں بازو کی نیوز ویب سائٹ 'برائٹ بارٹ نیوز‘ کے ایگزیکٹو چیرمین بھی رہ چکے ہیں۔ بینن اور بورس جانسن کے مبینہ رابطوں اور تعلقات کا انکشاف برطانوی اخبار آبزرور نے کیا ہے۔
آبزرور نے ایک ویڈیو کلپ ہفتہ بائیس جون کو جاری کیا ہے اور اُس میں جانسن اور بینن کے درمیان گفتگو دیکھی جا سکتی ہے۔ اس گفتگو میں دونوں حضرات سابق وزیر خارجہ کے منصب وزارت سے مستعفی ہونے سے قبل پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر پر بات کر رہے تھے۔ برطانیہ کی حکمران جماعت کی سربراہی کی دوڑ میں بورس جانسن کو موجودہ وزیر خارجہ جریمی ہنٹ کے چیلنج کا سامنا ہے
یہ امر اہم ہے کہ اس برطانوی سیاستدان نے کچھ دن قبل کہا تھا کہ اسٹیو بینن کے ساتھ رابطوں کی خبریں بے بنیاد ہیں اور حقیقت پر مبنی نہیں ہیں۔ انہوں نے ان باتوں کو انتہا پسندانہ فریب قرار دیا۔ اسی ویڈیو کلپ میں امریکی صدر کے سابق معاون جانسن یہ کہتے سنے گئے کہ یورپی یونین سے برطانیہ کا انخلا یوم آزادی کے مساوی ہو گا۔ پارلیمان میں جانسن کی تقریر اسی بات کے گرد گھومتی رہی۔
اسٹیو بینن اور بورس جانسن کی یہ ملاقات امریکی فلم ساز ایلیسن کلیمین نے اپنی ایک دستاویزی فلم کے لیے ریکارڈ کی تھی۔ اس دستاویزی فلم کا نام ' دی برنک‘ رکھا گیا ہے۔ اندازوں کے مطابق اس ویڈیو کلپ کی ریکارڈنگ گزشتہ برس موسم گرما میں کی گئی تھی۔ کلیمین نے اپنی دستاویزی فلم کے لیے کئی انتہا پسند یورپی رہنماؤں سے بھی اپنی ملاقاتوں کو شامل کیا ہے۔
برطانوی اخبارآبزرور کے مطابق دونوں اصحاب کے درمیان رابطے برطانوی سیاستدان کے وزارت خارجہ کے منصب سے استعفیٰ دینے کے بعد استوار ہوئے تھے۔ جانسن نے یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر اختلافات کی بنیاد پر ٹریزا مے کی حکومت سے استعفیٰ دیا تھا۔
بینجمن نائٹ (عابد حسین)
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔