برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کی کامیابی پر بھارت میں ایک حلقہ کافی خوش ہے کیوں کہ ان کا بھارت سے ایک خاص تعلق ہے۔ ایک وقت جانسن نے خود کو ’بھارت کا داماد‘ قرا ردیا تھا۔
تصویر: imago images/i Images
اشتہار
دراصل ان کی سابقہ بیوی میرینا کا تعلق بھارت سے ہے۔ میرینا اور جانسن میں گزشتہ برس علیحدگی ہو گئی تھی اور دونوں کے درمیان طلاق کا مقدمہ چل رہا ہے۔
میرینا بھارت کے معروف صحافی اور ادیب آنجہانی خوشونت سنگھ کی بھتیجی ہیں۔ میرینا کی والدہ دیپ سنگھ، جو ابھی حیات ہیں،کی شادی خوشونت سنگھ کے چھوٹے بھائی دل جیت سنگھ سے ہوئی۔ لیکن مختصر مدت کے بعد دونوں میں طلاق ہو گئی اور اس کے بعد دیپ سنگھ نے برطانوی صحافی سر چارلس وہیلر سے شادی کر لی۔ دیپ سنگھ کی بڑی بہن امرجیت سنگھ کی شادی بھی خوشونت فیملی میں ہی ہوئی۔ ان کی شادی خوشونت سنگھ کے بڑے بھائی بھگونت سنگھ کے ساتھ ہوئی تھی۔ یہ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا ہے۔ اس کا ایک دلچسپ تعلق بالی ووڈ کے اداکار سیف علی خان سے بھی ہے۔ سیف علی خان کی سابقہ بیوی اور اداکارہ امریتا سنگھ بھگونت سنگھ کی بھتیجی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Wigglesworth
یہ رشتہ خاصا پیچیدہ دکھائی دیتا ہے۔ لیکن ادیبہ ناومی دتہ نے اس پیچیدہ معمہ کو ٹوئٹر پر سہل انداز میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے”بورس جانسن کی ساس نے خوشونت سنگھ کے سب سے چھوٹے بھائی سے شادی کی۔ ان کی بہن کی شادی خوشونت سنگھ کے بڑے بھائی سے ہوئی۔ ساس نے کسی دوسرے شخص سے شادی کر لی، جس سے دو بیٹیاں پیدا ہوئیں ان میں سے ایک میرینا کی شادی بورس جانسن سے ہوئی۔"
میرینا کے ساتھ جانسن کی شادی 1993میں ہوئی تھی اور دونوں میں تقریباً پچیس برس تک میاں بیوی کا تعلق رہا۔ دونوں سے چار اولادیں ہیں۔ گزشتہ برس دونوں میں علیحدگی ہونے سے قبل بورس اپنی بیوی میرینا کے ساتھ متعدد بار بھارت کے دورے پر آچکے ہیں۔ بورس جب بھی بھارت آتے تو اپنی اہلیہ کے رشتہ داروں کے پاس دہلی یا ممبئی میں قیام ضرور کرتے تھے۔
خوشونت سنگھ کے بیٹے اور معروف صحافی راہل سنگھ نے انگلش روزنامہ دی ٹریبیون میں اپنے ایک کالم میں لکھا ہے کہ جانسن گزشہ برس اپنی بیوی اور تین بچوں کے ساتھ رن تھمبور ٹائیگر ریزرو آئے تھے۔ خاندان کے لوگوں کے ساتھ ملاقات کے دوران ان کی جانسن سے بھی ملاقات ہوئی تھی۔ راہل سنگھ مزید لکھتے ہیں ”گو چند برس قبل جانسن سے ممبئی میں میری ملاقات ہوئی تھی۔ لیکن یہ پہلا موقع تھا جب ان کے ساتھ براہ راست اور کافی تفصیلی گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ انہیں بھارت اور یہاں کی سیاست کی کافی معلومات ہے۔"
تصویر: Reuters/D. Martinez
بتایا جاتا ہے کہ برطانوی وزیر اعظم جانسن سن 2003 میں بھگونت سنگھ کے پوتے کی شادی میں شرکت کے لیے جنوبی ریاست کیرالا گئے تھے، جہاں ایک ہاتھی نے ان پر حملہ کردیا تھا۔
بھارت کے حوالے سے جانسن کو کئی مرتبہ سبکی بھی اٹھانی پڑی ہے۔ جب وہ خارجہ سکریٹری تھے تو انہوں نے سکھوں کے ایک گردوارے کا دورہ کے دوران بھارت میں وہسکی ایکسپورٹ کرنے کی بات کردی تھی جب کہ سکھ مذہبی لحاظ سے الکوحل کو حرام قرار دیتے ہیں۔ ایک سکھ خاتون نے بورس جانسن سے غصہ میں کہا ”آپ کو سکھوں کے گردوارے میں ایسا کہنے کی ہمت کیسے ہوئی۔"
بورس جانسن کے وزیر اعظم منتخب ہونے پر وزیر اعظم نریندر مودی نے مبارک باد دیتے ہوئے ٹوئٹ کیا، ”بورس جانسن کو بھاری اکثریت سے اقتدار میں واپس لوٹنے پر مبارک باد۔ میری طرف سے انہیں نیک خواہشات۔ انڈیا۔یوکے کے قریبی تعلقات کے لیے ہم ساتھ مل کر کام جاری رکھیں گے۔"
برطانوی الیکشن: چھ اہم معاملات
حالیہ برطانوی انتخابات کو کئی دہائیوں کے دوران انتہائی اہم انتخابات قرار دیا جا رہا ہے۔ بورس جانسن اپنی اکثریت بڑھانے جبکہ مخالفین بریگزٹ کا راستہ بدلنے کے خواہاں ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اہم ترین معاملات ہیں کیا؟
تصویر: picture-alliance/Newscom
بریگزٹ کا مطلب ہے بریگزٹ
کنزرویٹو پارٹی ہر صورت بریگزٹ کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتی ہے۔ وزارت عظمیٰ کے امیدوار بورس جانسن کا وعدہ ہے کہ کامیابی کی صورت میں برطانیہ اکتیس جنوری کو یورپی یونین سے نکل جائے گا۔ لیبر پارٹی کو موقف ہے کہ یورپی یونین کے ساتھ بریگزٹ معاہدے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے اور اس پر ایک اور عوامی ریفرنڈم ہونا چاہیے۔ جبکہ لبرل ڈیموکریٹ پارٹی سرے سے بریگزٹ کے ہی خلاف ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. McKay
صحت کی سہولیات برائے فروخت؟
انتخابی مہم کے دوران برطانیہ میں صحت کے سرکاری نظام میں خرابیوں پر خاصی بحث ہوئی۔ لیبر پارٹی کا کہنا ہے کہ اگر وہ اقتدار میں آ کر نیشنل ہیلتھ سروس کے بجٹ میں چار اشاریہ تین فیصد اضافہ کرے گی۔ اپوزیشن کا بورس جانسن پر الزام ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ کسی تجارتی معاہدے کے صورت میں نیشنل ہیلتھ سروس کی نجکاری کا اردہ رکھتے ہیں۔ جانسن نے اس الزام سے انکار کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/empics/S. Rousseau
اقتصادی معاملات
بجٹ اور مالیاتی پالیسی پر تین بڑی جماعتوں کی الگ الگ سوچ ہے۔ لبرل ڈیموکریٹ کے سربراہ جو سوئنسن کا موقف ہے کہ ٹیکسوں میں کچھ اضافہ کرنا ہوگا اور حکومتی اخراجات میں بھی۔ کنزرویٹو پارٹی نے ٹیکسوں میں کٹوتی لیکن ساتھ ہی لوگوں کی بہبود پر مزید رقم خرچ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ جبکہ لیبر پارٹی نے معیشت میں وسیع تر اصلاحات کی بات کی ہے تاکہ اس سے سب لوگ اجتماعی طور پر مستفید ہو سکیں۔
تصویر: picture-alliance/empics/A. Chown
توجہ کا مرکز تبدیل
جرائم کی روک تھام اور جیل اصلاحات کا معاملہ اس انتخابی مہم کے شروع میں اتنا زیر بحث نہیں تھا۔ لیکن لندن برج پر چاقو سے حملے کے بعد اس پرسوالات اٹھے اور پارٹیوں نے کھل کر اپنی اپنی پوزیشن واضح کی۔ جانسن نے لیبر پارٹی کی حکومت کے دور میں منظور کیے گئے ان قوانین پر تنقید کی جن کے تحت تخریب کاری میں پکڑے جانے کے باوجود ایک حملہ آور جیل سے جلد رہا ہوگیا تھا۔ انہوں نے قوانین کو سخت بنانے کی بات کی ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/D. Zarzycka
فوری معاملات کتنے اہم؟
گرین پارٹی کی رہنما کیرولائن لوکس گزشتہ پارلیمان میں اپنی جماعت کی واحد نمائندہ تھیں۔ ان کی پارٹی ماحول کے تحفظ پربڑے اور واضح اقدامات چاہتی ہے تاکہ فضا میں کاربن کا اخراج جلد کنٹرول کیا جائے۔ اس شعبے میں کنزرویٹو پارٹی کے اہداف سب سے زیادہ نرم اور لچک دار ہیں اور ان کے لیے ماحولیاتی تحفظ بظاہر اتنی بڑی ترجیح نہیں جتنی گرین پارٹی یا لیبر پارٹی کے لیے ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/W. Szymanowicz
شمال اور جنوب میں تقسیم
برطانیہ میں انتخابی عمل پر شمال اور جنوب کے درمیان سیاسی خلیج ایک حقیقت ہے، جو اس بار بھی حاوی ہے۔ 2014ء میں اسکاٹ لینڈ نے ریفرنڈم کے ذریعے برطانیہ سے آزاد ی کی کوشش کی، جو کامیاب نہیں ہو سکی۔ اسکاٹش ووٹر بورس جانسن کی بریگزٹ مہم کے خلاف ہیں۔ ان کی اکثریت یورپی یونین کا حصہ رہنے کے حق میں ہے۔ اسکاٹ لینڈ کی سیاسی قیادت کو خدشہ ہے کہ انہیں ان کی اپنی مرضی کے بغیر یورپی یونین سے نکالا جا رہا ہے۔