برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن اپنے منصب سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ وزیراعظم ٹریزا مَے کی کابینہ کے وہ دوسرے وزیر ہیں جنہوں نے کابینہ سے علیحدگی اختیار کی ہے۔
اشتہار
برطانیہ کے وزیر خارجہ بورس جانسن اپنے منصب سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ بریگزٹ کے وزیر ڈیوڈ ڈیوس کے مستعفی ہونے کے بعد بورس جانسن کے استعفے کو حیران کن قرار دیا گیا ہے۔ بورس جانسن یورپی یونین سے برطانیہ کے اخراج کی تحریک کے پرزور حامی تھے۔
برطانوی وزیراعظم کے دفتر کی جانب سے جانسن کے مستعفی ہونے کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ اُن کی جگہ پر نیا وزیر خارجہ جلد ہی مقرر کر دیا جائے گا۔ وزیراعظم ٹریزا مے نے جانسن کی بطور وزیر خارجہ خدمات کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔
پہلے ڈیوڈ ڈیوس اور پھر بورس جانسن کے مستعفی ہونے پر ٹریزا مَے کی کابینہ میں بریگزٹ کے معاملات پر دبے ہوئے اختلافات کے اندازوں کو تقویت حاصل ہوئی ہے۔ مبصرین کے مطابق بریگزٹ کے معاملے پر کابینہ میں اندرونی اختلافات ان استعفوں کے بعد باہر آنا شروع ہو گئے ہیں۔
بورس جانسن نے ایسے وقت میں استعفیٰ دیا ہے جب لندن میں مغربی بلقان علاقے کے ممالک کے لیڈروں کی سمٹ کا انعقاد کیا گیا ہے۔ مغربی بلقان کے شرکاء اپنے میزبان کے منتظر تھے کہ انہیں اس خبر سے مطلع کیا گیا۔
بریگزٹ کے لیے مقرر برطانوی وزیر ڈیوڈ ڈیوس نے اتوار آٹھ جون کی شام استعفیٰ دیا تھا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ دو ایام میں دو اہم وزیروں کے مستعفی ہونے سے وزیراعظم ٹریزا مَے کی حکومت کی بنیادیں ہل کر رہ گئی ہیں اور اُن کی وزارت عظمیٰ بھی کمزور ہو کر رہ گئی ہے۔ ڈیوس نے واضح کیا ہے کہ وہ یورپی یونین کے ساتھ تجارتی روابط پر پائی جانے والی مفاہمت کی حمایت نہیں کر سکتے۔
دوسری جانب یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹُسک نے کہا ہے کہ بریگزٹ سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کا خاتمہ برطانوی وزراء کے استعفوں سے ممکن نہیں ہے۔ ٹُسک نے برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن کے مستعفی ہونے پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مزید کہا کہ سیاستدانوں کا آنا جانا ایک معمول کا عمل ہے لیکن کئی ایک رخصت ہوتے وقت اپنے لوگوں کے لیے مشکلات چھوڑ جاتے ہیں۔
قبل ازیں انہوں نے ڈیوڈ ڈیوس کے مستعفی ہونے پر کہا تھا کہ بریگزٹ کا مسئلہ ابھی بھی اپنے حل سے بہت دور ہے اور یہ افسوسناک ہے کہ ڈیوس کے استعفے کے ساتھ بریگزٹ کا معاملہ ختم نہیں ہوا ہے۔
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔