بوسنیائی جنگ: جنگی مجرم کراڈچچ جیل سے کبھی باہر نہیں آئے گا
20 مارچ 2019
نوے کی دہائی میں بوسنیا کی جنگ کے دوران بوسنیائی سربوں کی قیادت کرنے والے رہنما اور جنگی مجرم راڈووان کراڈچچ کو سنائی گئی عمر قید کی سزا کے خلاف ایک اپیل اقوام متحدہ کی ایک عدالت نے بیس مارچ بدھ کے روز مسترد کر دی۔
اشتہار
راڈووان کراڈچچ کے خلاف یہ مقدمہ انیس سو نوے کی دہائی میں بوسنیا کی جنگ کے دوران جنگی جرائم، قتل عام کے واقعات، بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم سے متعلق آج تک کے سب سے بڑے مقدمات میں سے ایک تھا۔
کراڈچچ کو ماضی میں دی ہیگ میں اقوام متحدہ کی عدالت نے مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا تو سنا دی تھی لیکن کراڈچچ کی طرف سے اس سزا کے خلاف اپیل دائر کر دی گئی تھی۔ اب اس عالمی عدالت نے نہ صرف یہ اپیل مسترد کر دی ہے بلکہ مجرم کو سنائی گئی عمر قید کی سزا میں اضافہ بھی کر دیا گیا ہے۔
اس موقع پر ہالینڈ کے دارالحکومت دی ہیگ میں قائم اس عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ راڈووان کراڈچچ کے جرائم کو مد نظر رکھا جائے تو انہیں گزشتہ فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے اب پہلے سے زیادہ اور 40 سال کی جو نئی سزائے قید سنائی گئی ہے، وہ بھی دراصل بہت کم ہے۔
’اخلاقی ذمے داری ہاں، ذاتی ذمے داری نہیں‘
اس کے برعکس خود راڈووان کراڈچچ نے، جن کی قیادت میں بوسنیائی سرب دستے بوسنیا کی جنگ کے دوران بوسنیائی مسلمانوں کے علاوہ بوسنیائی کروآٹ فورسز کے خلاف بھی لڑتے رہے تھے، کہا کہ وہ قریب ایک چوتھائی صدی پہلے بوسنیا کی جنگ کے دوران سریبرینتسا میں مسلمانوں کے قتل عام سمیت جنگی جرائم کی اخلاقی ذمے داری تو قبول کرتے ہیں لیکن ذاتی طور پر خود کو ان جنگی جرائم کا ذمے دار نہیں سمجھتے۔
کراڈچچ کی عمر اس وقت 73 برس ہے اور 40 سال قید کا مطلب ہے کہ ان کے لیے اب جیل سے زندہ باہر نکلنا ناممکن ہو گا۔ عدالت کے مطابق کراڈچچ بوسنیا کی جنگ کے دوران جنگی جرائم، نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کا لازمی حصہ رہے تھے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد خونریز ترین یورپی تنازعہ
بوسنیا کی جنگ 1992 سے لے کر 1995 تک جاری رہی تھی اور وہ دوسری عالمی جنگ کے بعد براعظم یورپ کی سب سے ہلاکت خیز اور خونریز جنگ ثابت ہوئی تھی۔ اس جنگ میں ایک لاکھ سے زائد انسان ہلاک ہوئے تھے اور کئی ملین بے گھر بھی ہو گئے تھے۔
راڈووان کراڈچچ نے اپنے جرائم سے متعلق اقوام متحدہ کی عدالت کے جس گزشتہ فیصلے کے خلاف یہ اپیل دائر کی تھی، وہ 2016 میں سنایا گیا تھا۔ بوسنیائی جنگ کے بعد کراڈچچ سربیا میں روپوش ہو گئے تھے اور انہیں 2008 میں سربیا ہی سے گرفتار کیا گیا تھا۔ تب وہ وہاں ایک تھیراپسٹ کے طور پر روپوشی کی زندگی گزار رہے تھے۔
بوسنیائی مسلمانوں کا قتل عام، ہالینڈ کا احساس جرم
05:53
شاعر جو جنگی مجرم بن گیا
کراڈچچ کے بارے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ بوسنیائی سرب سیاستدان ایک پیشہ ور ماہر نفسیات ہونے کے علاوہ ایک شاعر بھی تھے، پھر جنگ کے دوران وہ ’وارلارڈ‘ بن گئے تھے، اس کے بعد سربیا میں چھپ کر وہ کم از کم تیرہ برس تک ایک تھیراپسٹ کی زندگی گزارتے رہے تھے اور اب نسل کشی اور جنگی جرائم کے مرتکب سزا یافتہ مجرم کے طور پر وہ اپنی باقی ماندہ زندگی جیل میں گزاریں گے۔
کراڈچچ کی سزا کی توثیق اور اس میں اضافے کے آج کے عدالتی فیصلے کی بوسنیائی جنگ میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین ، خاص کر سریبرینتسا میں مسلمانوں کے قتل عام جیسے واقعات کے ہلاک شدگان کے پسماندگان نے خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ ’نفرت سے بھرے ایک مجرم کو اس کے کیے کا صلہ مل گیا ہے‘۔
بوسنیائی جنگ کے دوران سریبرینتسا میں بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی کے صرف ایک واقعے میں ہی جولائی 1995 میں کراڈچچ کے زیر کمان بوسنیائی سرب دستوں نے تقریباﹰ 8000 مسلمان مردوں اور نوجوان لڑکوں کا قتل عام کیا تھا۔
م م / ع ا / روئٹرز، اے ایف پی
بلغراد میں پرانی بیرکیں، جو پاکستانی مہاجرین کا گھر بنیں
برطانوی فوٹو گرافر ایڈورڈ کرا فورڈ نے کئی ماہ تک سربیا کے کیمپوں میں وہاں قیام پذیر تارکین وطن کی روز مرہ زندگی کو عکس بند کیا۔ آئیے ڈالتے ہیں سربیا میں مہاجرین کی حالت زار پر ایک نظر کرا فورڈ کی ان تصاویر کے ذریعے۔
تصویر: Edward Crawford
امید کی کرن
بلغراد میں ان بیرکوں نے گزشتہ ماہ خالی کیے جانے سے قبل قریب بارہ سو مہاجرین کو پناہ دے رکھی تھی۔ کرا فورڈ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جب میں وہاں اس بحران کی تصویری کَور یج کر رہا تھا، میں نے سینکڑوں پناہ گزینوں سے بات کی۔ تمام پناہ گزینوں کا ایک ہی مقصد تھا یورپ میں ایک بہتر زندگی کی تلاش۔‘‘
تصویر: Edward Crawford
افغان اور پاکستانی مہاجرین کا گھر
یہ بیرکیں ایسے افغان اور پاکستانی مہاجرین کا گھر رہی ہیں جنہوں نے اپنے ممالک میں غربت اور دہشت گردی سے فرار ہونے کا فیصلہ کیا۔ کرافورڈ نے واضح کیا کہ افغانستان میں سلامتی کی صورت حال اُس وقت زیادہ خراب ہوئی جب مغربی افواج واپس چلی گئیں اور طالبان نے ملک میں اُن کے حامیوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔
تصویر: Edward Crawford
ہمدردی کی تلاش
رواں برس کے آغاز میں یورپ میں داخل ہونے والے مہاجرین کو جس مشکل کا سب سے پہلے سامنا کرنا پڑا وہ شدید سردیاں اور پھر موسم بہار کی سرد ہوائیں تھیں۔ ایسے میں اقوام متحدہ کی جانب سے ملے ان سرمئی کمبلوں نے سردی سے بچاؤ میں ان پناہ گزینوں کی مدد کی۔
تصویر: Edward Crawford
سرمئی کمبل
کرافورڈ نے کہا، ’’بیرکوں میں ہر طرف بے شمار کمبل دکھائی دیتے تھے۔ مہاجرین ان کے ڈھیر پر سوتے اور انہی کو گرم کوٹ کی طرح بھی استعمال کرتے تھے۔ اس تصویر میں نظر آنے والے شخص کے لیے کمبل کا استعمال ناگزیر تھا۔‘‘
تصویر: Edward Crawford
مہاجرت کے بحران کی علامت
یہ سرمئی کمبل جن کے بغیر مہاجرین کے لیے یورپ کی شدید کو برداشت کرنا شاید ممکن نہ ہو تا، نہ صرف مہاجرین کے بحران کی علامت بنے بلکہ ان تارکین وطن کی روز مرہ زندگی کا اہم جزو بھی بن گئے۔ اس تصویر میں ایک شخص پانی گرم کرتا اور ایک دوسرے مہاجر کے سر پر ڈالتا دکھائی دے رہا ہے۔ دوسرا ہاتھ میں صابن جبکہ تیسرا بال خشک کرنے کی غرض سے کمبل ہاتھ میں لیے تیار کھڑا ہے۔
تصویر: Edward Crawford
چھوڑا ہوا کمبل
یوں تو مہاجرین سربیا میں جہاں کہیں جائیں، سرمئی کمبل اِن کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں تاہم بعض اوقات یہ تارکین وطن اس لیے انہیں کسی جگہ چھوڑ جاتے ہیں تاکہ اُن کی چلنے کی رفتار متاثر نہ ہو۔ کرافورڈ نے بتایا کہ اس کمبل کا مالک اسے ٹرین میں چھلانگ لگاتے وقت ریلوے ٹریک پر چھوڑ گیا تھا۔
تصویر: Edward Crawford
ہیلو امی، میں خیریت سے ہوں
سرکاری اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ یورپ آنے والے چالیس فیصد مہاجرین بچے اور نو عمر افراد ہیں۔ اس تصویر میں نظر آنے والا ایک نوجوان مہاجر ہے جو اپنی ماں کو فون پر اپنی خیریت کی اطلاع دے رہا ہے۔
تصویر: Edward Crawford
بہتر صورت حال
کرافورڈ کے بقول اگرچہ بیرکوں میں گنجائش سے زیادہ افراد تھے اور صفائی ستھرائی کی صورت حال بھی اچھی نہیں تھی، اس کے باوجود یہ سربیا کے دوسرے مہاجر کیمپوں کے مقابلے میں بہتر تھا۔
تصویر: Edward Crawford
یورپی یونین پر تنقید
کرافورڈ کے نزدیک اگرچہ صورت حال قدرے مستحکم ہے تاہم وہ بحران کے حوالے سے یورپی یونین کے رویے کو تنقیدی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے،’’ سربیا کو کہیں زیادہ فنڈز ملنے چاہئیں تاکہ یہاں مہاجرین کے لیے بہتر ماحول میں کیمپ بنائے جا سکیں۔‘‘
تصویر: Edward Crawford
رویے کی شکایت کے بجائے تعلیم
کرافورڈ کا کہنا ہے کہ یورپ میں قانونی طور پر مہاجرین کے داخلے کے لیے پناہ کی درخواستوں پر عمل درآمد کی رفتار کو تیز کیا جانا چاہیے۔ لیکن خود مہاجرین صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے کیا کریں؟ اس کا ایک ہی جواب ہے۔ اُن کے رویے کی شکایت کرنے کے بجائے اُنہیں تعلیم دی جائے اور یہ بتایا جائے کہ یہاں کیا قابلِ قبول ہے اور کیا نہیں۔