1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بوسنیائی سرب جنگی مجرم کا رہائی کے بعد ہیرو کا سا استقبال

مقبول ملک31 اگست 2013

بوسنیائی سرب رہنما مومچیلو کرائسنک جنگی جرائم کے مقدمے میں سنائی گئی کئی سال کی سزائے قید کاٹنے کے بعد واپس اپنے آبائی شہر پہنچ گئے ہیں، جہاں آمد پر ان کا ایک ہیرو کے طور پر استقبال کیا گیا۔

تصویر: Anja Niedringhaus/AFP/Getty Images

بوسنیا ہیرسے گووینا کے پالے نامی شہر سے موصولہ مختلف خبر رساں اداروں کی رپورٹوں کے مطابق کرائسنک کو جنگی جرائم کے ارتکاب کے الزامات ثابت ہو جانے پر 20 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی اور انہوں نے اس عرصے کا دو تہائی حصہ جیل میں گزارا۔

بوسنیائی سرب رہنما مومچیلو کرائسنکتصویر: AP

اپنی قبل از وقت رہائی کے بعد جب وہ جمعے کی شام اپنے آبائی شہر پالے پہنچے تو وہاں ان کے استقبال کے لیے ہزاروں افراد موجود تھے۔ فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ اس موقع پر مومچیلو کرائسنک کے استقبال کے لیے نہ صرف ہزاروں افراد جمع تھے بلکہ پالے کی گلیاں ایسی جھنڈیوں اور بینروں سے بھری ہوئی تھیں، جن پر لکھا تھا، ’گھر واپسی پر خوش آمدید!‘

اس موقع پر ایسے جذباتی افراد کی تعداد بھی سینکڑوں میں تھی، جو اپنے ہاتھوں میں پکڑے سربیا کے جھنڈے لہرا رہے تھے اور سربوں کے قوم پسندی والے گیت گا رہے تھے۔ مومچیلو کرائسنک نے پالے پہنچنے پر اپنے استقبال کے لیے آنے والے ہزاروں کے مجمعے سے مختصر خطاب بھی کیا۔ انہوں نے کہا، ’’نفرت چھوڑ دو اور ہر اس فرد کی طرف اپنا ہاتھ بڑھاؤ جو مصالحت چاہتا ہے۔‘‘

کرائسنک کی عمر اس وقت 68 برس ہے اور ان کے سر کے بال سفید ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے مداحوں سے خطاب میں کہا، ’’ہم سب کو ان سب کو معاف کر دینا چاہیے، جنہوں نے ہمارے ساتھ ظلم کیا۔ اور ہمیں ان سب لوگوں سے اپنے لیے معافی کی درخواست کرنا چاہیے، جن کے ساتھ ہم نے ظلم کیا۔‘‘

مومچیلو کرائسنک کو ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں قائم سابق یوگو سلاویہ میں جنگی جرائم سے متعلق عدالت نے مجرم قرار دیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے 1992ء سے لے کر 1995ء تک جاری رہنے والی بوسنیا کی جنگ کے دوران غیر سرب باشندوں کی جبری بے دخلی میں اہم کردار ادا کیا تھا اور وہ جنگی جرائم کے علاوہ انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب بھی ہوئے تھے۔

شروع میں انہیں 27 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ پھر اسی سال جولائی میں ایک اپیل کے بعد ان کی سزا کی مدت میں کمی کر دی گئی تھی۔ اس پیش رفت کے بعد کرائسنک کو برطانیہ کی اس جیل سے قبل از وقت رہا کر دیا گیا، جہاں انہوں نے اپنی سزا کاٹی۔ کرائسنک ماضی میں بوسنیائی سربوں کے جنگ کے دور کے رہنما راڈووان کراڈچچ کے ایک قریبی اتحادی بھی رہے ہیں۔

راڈووان کراڈچچتصویر: AP

ان کی قبل از وقت رہائی اس لیے بھی ممکن ہو سکی کہ انہوں نے اپنی گرفتاری اور اپریل 2000ء میں اپنے دی ہیگ کے بین الاقوامی ٹریبیونل کے حوالے کیے جانے کے دوران بھی کافی عرصہ حراست میں گزارا تھا۔ کرائسنک کی بانیا لوکا میں آمد کو بوسنیائی سرب جمہوریہ کے ریاستی ٹیلی وژن نے براہ راست نشر کیا اور وہاں سے انہیں ایک سرکاری ہیلی کاپٹر کے ذریعے پالے پہنچایا گیا، جو بوسنیا کی جنگ کے دوران سربوں کی طاقت کا ایک بہت اہم گڑھ تھا۔

کرائسنک نے ماضی میں راڈووان کراڈچچ کے ساتھ مل کر قوم پسندوں کی سربیائی ڈیموکریٹک پارٹی کی بنیاد بھی رکھی تھی اور بعد میں وہ بوسنیائی سرب پارلیمان کے اسپیکر بھی بنے تھے۔

مومچیلو کرائسنک کی رہائی پر ان کے ایک قومی ہیرو کے طور پر استقبال کے سلسلے میں بوسنیا میں قائم سابقہ جنگی قیدیوں کی تنظیم کی خاتون عہدیدار جیسمِین میسکووِچ نے کہا، ’’پالے میں کرائسنک کا استقبال ان متاثرین کی براہ راست تذلیل ہے، جنہوں نے بوسنیائی سربوں کے ہاتھوں ماضی میں ہولناک اذیتیں برداشت کیں۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں